پنجاب سے سوات تک ،حصہ دوم تحریر ارم شہزادی
پنجاب سے سوات تک ،حصہ دوم
ہمارا خیال یہ تھا کہ ہم صبح سویرے ہی کالام کا سفر شروع کریں گے لیکن تھکاوٹ کے باعث یہ جلدی ممکن نا ہو سکا اور ہمیں منیگورہ سے کالام تک نکلنے نکلتے 1 بج گیا۔ کالام تک روڈز خوبصورت اور محفوظ تھا بس ایک دو جگہ پر ہمیں تھوڑی بہت مشکل پیش آئی باقی سفر اچھا رہا۔ ایک دو جگہ رکنے کی وجہ سے ہم کالام شام تک پہنچے۔ اب وہاں ہوٹل کی چوائس میں مشکل پیش آئی کیونکہ ہم میں سے اکثریت دریائے سوات کے قریب ٹھہرنا چاہتے تھے جبکہ بچہ پارٹی جھولے اور سلائڈز والے ہوٹل کا انتخاب کیے بیٹھے۔ خیر لیا ہم نے پھر دریائے سوات کے رخ والا۔ پہلی بار یوں دریا کے قریب ٹھہرنا اور سونے کا تجربہ ہوا۔ سامان سیٹ کمروں میں کیا اور کچھ سستانے لگے۔ پھر ایک چکر بازار کا لگایاوہاں عجیب سی خاموشی تھی مطلب عورتوں کا رش تو دور کی بات عورت نظر ہی نہیں ارہی تھی۔ کچھ دکانیں کھلی تھیں اور ڈرائی فروٹ مارکیٹ بہت بڑی تھی۔ وہیں سے گھومتے پھرتے میں اپنا پاؤں زخمی کروا بیٹھی۔ خیر پھر ہم "کمال” ہوٹل گئے وہ دریا کے کنارے تھا کھانا کھایا وہاں البتہ بہت بڑی تعداد لوگوں کی دیکھی جن میں خواتین، مرد، بوڑھے، بچے سب شامل تھے۔ کھانے کا زائقہ بہت زبردست تھا۔ سروس اچھی تھی۔ اور بل بھی مناسب تھا۔ یہاں بھی مجھے مقدار، زائقہ، معیار اور ریٹ نے کافی متاثر کیا۔ کھانے کے بعد ایک چکر پھر بازار کا لگایا تب زرا گہماگہمی تھی۔ لوگ گھوم رہے تھے کہیں کوئی خوف کا شائبہ تک نا تھا۔ لگتا نہیں تھا کہ چند سال پہلے تک یہ سارا علاقہ خوف کی علامت تھا۔ سکون اور خوشگوار ماحول میں مجھے وہ تمام لوگ یاد آئے جو قربان ہوئے اس آمن کو لانے کے لیے۔ مقامی آبادی سے لے کر افواج پاکستان کے جوانوں تک۔ کیونکہ انہیں کے خون سے ہوا ہے یہ چمن آباد۔ الله پاک اسے دشمن سے محفوظ رکھے۔ امین ثمہ آمین۔ واپسی پے سب باہر رک گئے جبکہ میں ہوٹل واپس اگئی ٹیرس پر چائے منگوائی اور دریا کے شور کو سنا محسوس کیا۔ اسکی لہریں ایسی بپھری ہوئی تھیں جیسے کسی چیز کا کسی بات کا شدید غصہ ہو۔ جیسے ابھی سب کو لے ڈوبیں گی۔ بہا کے کہیں دور لے جائیں گی۔ ان لہروں کو دیکھتے ہوئے اور ٹھنڈی ہوا کو محسوس کرتے ہوئے آپ عجیب دنیا میں کھو جاتے ہیں۔ جہاں صرف آپکی زات ہوتی ہے ماضی کے دکھ حال کے چیلنجز اور مستقبل کی پلاننگ سبھی شامل ہوتے ہیں۔ مجھے ان لہروں کی نظر ہو جانے والے وہ نوجوان بھی یاد آئےجنہیں یہ لہریں بہا کے لے گئیں مجھے ناطق لکھنوی کا شعر یاد ایا وہاں بیٹھے لہروں کا شور سنتے
"کہہ رہا ہے شور دریا سے سمندر کا سکوت
جس کا جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے”
سمندر کسطرح خاموشی سے بہتا ہے۔ پرسکون سا۔ اسکی لہریں اسکا شور اف الله۔ سب کی واپسی تقریباً ایک بجے ہوئی لیکن ہم سب پھر وہیں ٹیرس پر بیٹھے رہے تقریباً تین بجے تک پھر کمروں میں گئے وہاں نیند کا ایسے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جیسے ہم گھروں میں سوتے ہیں۔ کیونکہ پھر اگلے دن کی تیاری اور پروگرام کی ترتیب سونے کہاں دیتی ہے۔ اگلے دن ہم نے "اوشو” جنگل جانا تھا وہ بھی بہت خوبصورت جگہ ہے جب ہم پہنچے ناشتہ کرنے کے بعد تو کئی لوگوں کے کیمپ لگے ہوئے تھے۔ جھولے تھے گھڑ سواری اور اونٹ کی سواری بھی تھی۔ لیکن ہم اس سے پہلے اگے "کارگل” جھیل پرچلے گئے ہمارا سامنا دو بچوں سے ہوا ایک کا نام صابر تھا عمر یہی کوئی آٹھ دس تھی۔ نشانہ بازی کے لیے غبارے تھے اس کے پاس بچوں نے نشانے لیے اور تصاویر بنائیں لیکن وہ بچے ہمارے ساتھ رہے "اوشو” سے لے کر "جھیل” تک۔ اس بچے کی خدمت اور اپنے رویے پر میں بہت شرمندہ ہوں۔ واقعہ بتاتی ہوں ہوا کیا۔ صابر نے کہا کہ ہم آپکو جھیل تک لے جاتے ہیں ڈرائیور نے اسےگاڑی میں بیٹھا لیکن میں نے یہ کہہ کر اتار دیا کہ علاقہ محفوظ لگ تو رہا ہے لیکن پھر بھی اتنا اعتبار مناسب نہیں ہے اگر بچہ خود کہہ دے کہ یہ لوگ مجھے آغواہ کر کے لے جارہے ہیں تو ہم کیا کریں گے۔ اس لیے اگر انہوں نے انا ہوا تو خود اجائیں گے ہم ساتھ نہیں لے جائیں گے۔ اتار دیا انہیں اور خود چلے گئے کافی اگے جانے کے بعد پتہ چلا کہ گاڑی چونکہ بڑی ہے تو اس لیے نہیں جاسکتی سڑک تنگ ہے جانا ممکن نہیں پیدل جانا ہوگا بس ہم پھر مسجد کے قریب گاڑی کھڑی کی اور اگے پیدل نکل گئے۔ جب تک ہم لوگ پہنچے صابر اور اسکا دوست پہنچ چکے تھے وہاں چھوٹے کیری ڈبے ٹائپ اسانی سے چلتے ہیں۔ وہاں پہنچ کر بھی بچے ہمارے چھوٹے چھوٹے کام کرتے رہے۔ پہنچ کے یاد آیا کہ آموں کی پیٹیاں تو ہم گاڑی میں ہی بھول آئے سگنل وہاں تھے نہیں کیا کرتے کچھ سمجھ نا آئی تو صابر نے کہا ہم جاتا ہے لے کر اتا ہے۔ کسی سے لفٹ لے کر گیا اورپندرہ منٹ میں آم ہمارے پاس تھے۔ کیا ٹھنڈا پانی تھا جھیل کا۔ بہت مزا آیا۔ دریا کی لہریں وہاں بھی یونہی شور کررہی تھیں۔ لکھا ہوا تھا کہ پتھروں پر بیٹھ کر تصاویر بنوانے سے گریز کریں۔ کیونکہ بہاؤ بہت تیز ہے۔
جاری