قاتل سموگ، ذمہ دار کون؟
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی
پاکستان میں سموگ کا مسئلہ ایک سنگین صورت اختیار کر چکا ہے، جو ہر سال شہریوں کی صحت پر منفی اثرات ڈال رہا ہے۔ سموگ کے پھیلاؤ میں کئی عوامل شامل ہیں، جن میں کسانوں کا کردار سب سے زیادہ اہم ہے۔ کسانوں کی جانب سے دھان کی پرالی جلانا، صنعتی فضلہ، بھٹوں سے نکلنے والی آلودگی اور شہروں میں گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں سموگ کی شدت میں اضافہ کرتے ہیں، جس کے باعث فضائی آلودگی میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔
گذشتہ کچھ سالوں میں کسانوں نے دھان کی فصل کی کٹائی کے دوران تھریشر مشینوں کا استعمال بڑھا دیا ہے۔ اس سے فصل کی گہائی کا عمل تیز ہو گیا ہے مگر اس کے ساتھ ہی پرالی جلانے کا مسئلہ بھی سامنے آیا ہے۔ زیادہ تر کسان پرالی کو آگ لگا کر ختم کرتے ہیں کیونکہ ان کے پاس اس کو ٹھکانے لگانے کے دوسرے سستے اور آسان طریقے نہیں ہیں۔ پرالی جلانے سے زہریلی گیسیں اور دھواں فضا میں پھیلتا ہے، جو سموگ کی شدت کو بڑھاتا ہے۔ اسی طرح کھیتوں میں مڈھوں کو جلانے کا عمل بھی آلودگی میں اضافہ کرتا ہے۔کسانوں کا یہ عمل اس وجہ سے ہوتا ہے کہ انہیں اس بات کا مکمل علم نہیں ہوتا کہ پرالی جلانے سے فضائی آلودگی بڑھتی ہے اور سموگ کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے۔ دوسری جانب کسانوں کے پاس وہ وسائل نہیں ہیں جو انہیں پرالی کو بامقصد استعمال میں لانے کے لیے درکار ہیں۔ جدید مشینری اور کھاد بنانے کے طریقے مہنگے ہیں اور چھوٹے کسان ان اخراجات کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہوتے۔ اس وجہ سے وہ پرالی کو جلانے کو ہی آسان اور سستا طریقہ سمجھتے ہیں۔
سموگ کے پھیلاؤ میں انڈسٹریوں کا بھی اہم کردار ہے۔ بہت سی صنعتوں سے فضائی آلودگی کے اخراج کی روک تھام کے لیے بنائے گئے قوانین پر عمل نہیں کیا جاتا۔ انڈسٹریوں سے نکلنے والا دھواں اور زہریلی گیسیں فضا کو آلودہ کرتی ہیں جس سے سموگ کی شدت بڑھ جاتی ہے۔ انڈسٹریل یونٹس میں فضلے کو مئوثر طریقے سے ٹھکانے لگانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے، جو اکثر غیرمئوثریا مہنگی ہوتی ہے۔
سموگ پھیلانے میں اینٹوں کے بھٹوں کو نظربھی انداز نہیں کیا جاسکتا ، جدیدٹیکنالوجی پر منتقل نہ ہونے والے اور خاص طور پر اینٹیں بنانے والے وہ بھٹے جو عام طور پر لکڑی یا کوئلے کی بجائے ربڑ، گندے کپڑے اور کچرا جلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں، فضا میں انتہائی خطرناک آلودگی چھوڑتے ہیں۔ یہ بھٹے فضائی آلودگی کے لیے اہم ذرائع بنتے ہیں کیونکہ ان میں جلنے والا فضلہ زہریلی گیسوں کے اخراج کا باعث بنتا ہے، جس سے سموگ میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں فضا میں کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ اور دیگر زہریلی گیسیں شامل ہو جاتی ہیں جو نہ صرف ماحول کو آلودہ کرتی ہیں بلکہ انسانوں کی صحت کے لیے بھی خطرناک ہیں۔
شہری علاقوں میں گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں بھی سموگ کا ایک بڑا سبب ہے۔ غیر معیاری ایندھن کا استعمال اور پرانی گاڑیاں سموگ کی شدت میں اضافہ کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ شہر کی سڑکوں پر ٹریفک کا دبا ؤبھی گاڑیوں سے نکلنے والی گیسوں کی مقدار کو بڑھا دیتا ہے جو آلودگی کے مسائل کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے، سموگ کے اثرات نہ صرف ماحول بلکہ انسانی صحت پر بھی گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ اس کی وجہ سے سانس کی بیماریوں، پھیپھڑوں کے مسائل، دمہ، آنکھوں میں جلن اور دل کے امراض میں اضافہ ہو رہا ہے۔ خاص طور پر بچے، بزرگ اور وہ لوگ جو پہلے سے کسی بیماری کا شکار ہیں، سموگ سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
سموگ کے مسئلے کے حل کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ کسانوں کو پرالی کے بہتر استعمال کی تربیت دے اور انہیں مالی معاونت فراہم کرے تاکہ وہ اس مسئلے کا مستقل حل تلاش کر سکیں۔ اس کے علاوہ انڈسٹریز میں فضائی آلودگی کی روک تھام کے لیے قوانین پر سختی سے عملدرآمد کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی بھٹوں پر نگرانی بڑھا کر اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ وہ صرف معیاری ایندھن کا استعمال کریں تاکہ فضائی آلودگی کو کم کیا جا سکے۔ شہروں میں گاڑیوں کے معائنہ اور دیکھ بھال کے نظام کو مئوثر بنانا ضروری ہے تاکہ گاڑیوں سے نکلنے والی آلودگی کو کم کیا جا سکے۔
اگر حکومتی سطح پر سموگ پیدا کرنے والے عوامل پر کنٹرول کرنے کے لیے کوئی واضح پالیسی یا حکمت عملی نہ بنائی گئی تو شہری یونہی سموگ کے زہر سے متاثر ہو کر خطرناک بیماریوں کا شکار ہوتے رہیں گے۔ سموگ کا یہ عفریت بڑھتا جائے گا اور اس کا اثر عوام کی زندگیوں پر مزید منفی پڑے گا۔ ان تمام مسائل کے پھیلا ؤکی واحد اور بنیادی ذمہ دار حکومت ہی ہے، جس کی غفلت اور کمزورپالیسیوں کے باعث یہ سنگین بحران جنم لے چکا ہے۔ اگر حکومت نے اس مسئلے کی طرف فوری توجہ نہ دی اور عملی اقدامات نہ اٹھائے تو یہ بحران پورے ملک کی صحت اور ماحول کو اپنی لپیٹ لے کر ایک بہت بڑا خطرہ بن جائے گا۔