قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی نے حکومتی اقدام پر اعتراض اٹھا دیا

باغی ٹی وی : قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی نے حکومتی اقدام پر اعتراض اٹھا دیا

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی نے سندھ اور بلوچستان کے موٹرویز کو حکومتی فنڈنگ کے بجائے پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ (پی پی پی) کے تحت کرانے پر تشویش کااظہار کرتے ہوئے ان منصوبوں کودیگر موٹرویز کی طرح حکومت فنڈدے ورنہ یہ منصوبے اگلے 50سال بھی شروع نہیں ہوگا۔تحریک انصاف کے سینیٹردوست محمدخان نے صوبہ خیبرپختون خوا میں جنوبی اضلاع پر مشتمل الگ صوبے بنانے کامطالبہ کرلیا،جنوبی اضلاع میں غربت انتہاءکی ہے عملی طورپر پشاور کے غلام ہوگئے ہیں،

حکام نے کہاکہ نومبر 2023تک گوادر ائیرپورٹ مکمل ہوجائے گا۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی کی زیرصدارت چیرمین سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی سربراہی میں پارلیمنٹ ہاوس میں ہوا۔اجلاس میں سینیٹر دوست محمدخان ،اعجازاحمدچوہدری ،دنیش کمار،محمدطاہر بزنجو،روبینہ خالد،اعظم نزیدتارڑ،نذہت صادق،سرادرمحمدشفیق ترین اور کہودابابر نے شرکت کی جبکہ کمیٹی میں ایڈیشنل سیکرٹری وزارت منصوبہ بندی ودیگر حکام نے شرکت کی ۔ وزارت منصوبہ بندی کے حکام نے کمیٹی کوبتایاکہ اس سال 210منصوبہ مکمل کریں گے اگلے مالی سال 300منصوبے مکمل کریں گے ۔ چیرمین کمیٹی سیلم مانڈوی والا نے کہاکہ این ایچ اے کے منصوبے ہر ماہ کمیٹی دیکھے گی کہ ان پر کیا پیش رفت ہورہی ہے۔گذشتہ دو سال سے سینیٹ کی سفارشات پر عمل نہیں ہورہاہے۔

حکام نے کمیٹی کوبتایاکہ کہ سی پیک کے منصوبوں کی پراپر فنڈ ہوں تاکہ منصوبے بروقت مکمل ہوں۔ طاہر بزنجو نے کہاکہ بلوچستان میں کوئی موٹروے نہیں بنائی جارہی ہے سی پیک کے تحت دیگر صوبوں میں موٹروے بنائے گئے ہیں بلوچستان میں کوئی ایک موٹروے تو بنائیں۔سینیٹردوست محمد خان نے کہاکہ ٹانک میں 40سال سے ڈیم کا پی سی ون منظور ہے مگر اس پر کام نہیں ہورہاہے جس کی وجہ سے وہاں کے غریب لوگوں کو بہت مسائل ہیں۔ایڈیشنل سیکرٹری وزارت منصوبہ بندی حامد یعقوب شیخ نے کہاکہ ٹانک کے بھی مسائل ہیں مگر وسائل کم ہیں ایکنک کی میٹنگ ہوگئی ہے ابھی اس کو نہیں ڈال سکتے ہیں۔نومبر 2023تک گوادر ائیرپورٹ مکمل ہوجائے گا ۔14ارب32کڑور 70لاکھ روپے کے درخت لگانے کے منصوبے ہیں42ارب سے زائد روپے ایچ ای سی کے منصوبوں کے لیے رکھے گئے ہیں۔وزارت منصوبہ بندی نے تمام وزارتوں کے 6کھرب 28ارب26کڑور49لاکھ روپے کے منصوبوں کی منظوری دی گئی ہے حکام نے بتایاکہ کھاریاں راولپنڈی،بلکسر میانوالی ،مظفرگڑھ میانوالی ،کوئٹہ کراچی چمن ،کراچی سرکلرریلوے ،کراچی پپری(فریٹ کوریڈور)کو پی پی پی کے تحت بنائی جائے گی ۔

چیرمین سلیم مانڈوی والانے کہاکہ بحٹ پر سینیٹ صرف سفارشات کرسکتی ہے حکومت پر لازم نہیں ہے کہ ہماری سفارشات پر عمل کرے۔سلیم مانڈوی والانے کہاکہ اسلام آباد لاہور ،پشاور اسلام آباد ودیگر موٹروے بنائی جاسکتی ہیں تو سکھر حیدرآباد کیوں نہیں بنائی جاسکتی ہے۔ بلوچستا ن کے سینیٹر کہودابابردنیش کمار،محمدطاہر بزنجو نے کہاکہ کوئٹہ کراچی چمن موٹروے پی پی پی موڈ پر اگلے 50سال بھی نہیں بنے گا اس منصوبے کوحکومت پی ایس ڈی پی سے کرئے ۔ کمیٹی نے سفارش کی کہ ان تمام منصوبوں کوبھی حکومت فنڈدے پی پی پی سے یہ منصوبے شروع نہیں ہوسکتے ہیں کوئی اتنی بڑی سرمایہ کاری نہیںکرسکتاہے ۔دوست محمد خان نے کہاکہ ہمارے 13اضلاع میں ایک بھی پیسہ وہاں پر خرچ نہیں ہورہاہے ہم تحت پشاور کے غلام ہوگئے ہیں۔

پشاور میں کوئی ہماری بات سنتا نہیں ہے اس لیے الگ صوبے کی ڈیمانڈ کررہے ہیں۔کمیٹی نے کہاکہ 35کڑور روپے ایم این ایز کو دیئے جاتے ہیں مگر سینیٹرز کو کوئی ترقیاتی فنڈز نہیں دیئے جاتے ہیں۔ایس ڈی جیز کے منصوبوں کی منظوری نہیں ہوئی اور فنڈز رکھ دیئے گئے ہیں۔چیرمین کمیٹی نے کہاکہ 46ارب روپے کابینہ کا بجٹ ہے جو وزیراعظم کی صوابدید پر ایم این ایز کو دیئے جائیں گے ۔سینیٹرز کو بھی ترقیاتی بجٹ ملناچاہیے۔
محمد اویس

Comments are closed.