تاریخ عالم کے ادوار کا پرغور مطالعہ کرتے ہوئے اگر انسانی ذندگی پر تلوار اور قلم کے اثرات کا موازنہ کیا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ تلوار نے سوائے انسانی تاریخ کے صفحات کو خون سے رنگنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا جبکہ علم و قلم نے انسانوں کے لئیے آگاہی کے دروازے کھولتے ہوئے ان کو کائنات کے رازوں سے آگاہ کیا جس کی بدولت انسان دوسری مخلوقات سے نہ صرف ممتاز ہوا بلکہ علم کے ذرئعے انسان طرح طرح کی ایجادات کر کے اپنی ذندگیوں میں انقلاب لا چکا ہے۔
علم اور شعور کے فروغ اور نظریات و خیالات کے اشاعت کے لئیے قلم بنیادی اہمیت کی حامل ضروریات میں سے ایک ہے اس لئیے دور قدیم ہو یا ذمانہ جدید , قلم کی اہمیت کسی بھی دور میں کم نہیں ہوئی ۔
جو چیز تلوار کے ذور پر نافذ کی جائے ایک دن اس کے خلاف بغاوت عمل میں ضرور آتی ہے اور وہ ذیادہ عرصے تک نافذ العمل نہیں رہ سکتی ۔
انقلاب لانے کے لئیے قلم کا استعمال ایک ہتھیار کے مقابلے میں کئی گنا ذیادہ ہے اور قلم کے ذرئبعے لایا گیا انقلاب دیر پاء اور مؤثر رہتا ہے ۔
تلوار کے ذریعئیے نافذ کئیے گئے قوانین کے تحت چلنے والے معاشرے بغاوت کی ذد میں آکر تباہیوں کا شکار ہو گئے ۔
انسانی تاریخ کا جائزہ لینے سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ قلم کے ذور پہ لڑی گئی لڑائیاں فتح سے ہمکنار ہوئیں۔ اگرچہ یہ کام محنت طلب ہے لیکن جانی نقصان سے پاک انقلاب کا پر امن راستہ ہے ۔
نظریات و عقائد غلط ہوں یا صحیح ان کو خون بہا کر ختم نہیں کیا جا سکتا بلکہ تحریر و تقریر سے مدمقابل کے ذہنوں کو بدل کر ان کو غلط اور صحیح کا ادراک کراتے ہوئے بہت بڑی تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ آگاہی اور شعور انسانی اذہان میں انڈیل کر باطل نظریات کا رد دلیل سے کرنا ہی عقلمندی ہے ۔
دہشت اور خوف کی تھپیڑے سہنے والے اور انسانی خون سے استوار کردہ معاشرے کے باسی ذہنی طور پہ مفلوج ہوتے ہیں ۔
اگر تاریخ عالم پر نظر دوڑائی جائے تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ارسطو و سقراط اور افلاطون کے نظریات کا رد آج تک نہیں ہو سکا کیونکہ انہوں نے قلم جیسے مؤثر ہتھیار کو اٹھا کر قوموں کی تاریخ اپنے ہاتھوں مرتب کی ۔ سقراط کو ذہر پلانے والے اس بات سے ناواقف تھے کہ سقراط نے اپنے قلم کے ذرئعیے جو نظریات لوگوں کے ذہنوں پہ نقش کر چھوڑے ہیں وہ کسی صورت نہیں اتر سکتے ۔ ارسطو اور سقراط نے قلم اور دلیل کو استعمال کرتے ہوئے جس معاشرے کی بنیاد رکھی وہ اتنی طاقتور بنیاد تھی کہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی وہ معاشرہ انہی بنیادوں پہ استوار نظر آتا ہے ۔
قلم اور دلیل سے نافذ کئیے گئے نظریات کے مدمقابل جب ایک شریر و ظالم حکمران آتا ہے تو وہ دلیل سے دلیل کا مقابلہ نہ کر سکنے کی وجہ سے اپنی حزیمت کو مٹانے کے لئیے تلوار کا استعمال کرتا ہے ۔
ایسے افراد سے بھی تاریخ بھری پڑی ہے لیکن ایسے افراد کے جبری قوانین کبھی قائم نہ رہ سکے ۔
ہلاکو خان ہو , چنگیز خان ہو یا ایڈولف ہٹلر ہو , جس نے بھی تلوار کے ذور سے لوگوں کو دبا کر رکھنے کی کوشش کی وہ ذیادہ دیر تک اپنا تسلط قائم نہ رکھ سکے کیونکہ کچھ ہی عرصے میں ان کے خلاف مقبوضہ علاقوں میں وہ بغاوت دیکھنے کو ملی جس نے نہ صرف ان کی سلطنت کو تاراج کیا بلکہ خود ان کو بھی اپنے منطقی انجام تک پہنچا دیا ۔
فروغ علم نہ صرف انقلابی تبدیلیاں لاتا ہے بلکہ ایک فلاحی معاشرے کی بنیاد بنتا ہے جو برابری و مساوات اور انصاف کے رہنماء ستونوں پر استوار ہوتا ہے۔
جبکہ دوسری طرف جبری قوانین جو طاقت کے ذور پہ نافذ کئیے گئے ہوں ایک ایسے معاشرے کو تشکیل دیتے ہیں جو جرائم , بدامنی اور بد عنوانی کی آماجگاہ ہوتا ہے۔
جہالت ایسے معاشرے کے افراد کی رگوں میں سرایت پزیر ہو جاتی ہے اور ایسے لوگوں کا رویہ انتقامی ہوتا ہے
جدید دور کے دانشور اس بات کو تسلیم کر چکے ہیں کہ ایک فلاحی معاشرے کی تشکیل کے لئیے علم بنادی عنصر ہے۔ علم کے بغیر قومیں ذوال پزیر ہو کر تاریخ کے اوراق میں گم ہو کر رہ جاتی ہیں۔
حالیہ ذمانے میں باطل نظریات و عقائد کا رد طاقت کے ذور پر ممکن نہیں ہے بلکہ ٹھوس دلائل کی مؤثر اشاعت سے ہی باطل نظریات کو مٹا کر نئے معاشرے کی تشکیل کا بیج بوبا جا سکتا ہے ۔ اس کو تناور درخت بننے میں سالہا سال ضرور لگ سکتے ہیں لیکن یہ واحد راستہ ہے جو پائیدار اور دیرپا تبدیلیاں لا سکتا ہے ۔
دور حاضر میں اسی بات پر ذور دیا جا رہا ہے کہ اپنی بات کو تشدد اور جبر کا راستہ اپنا کر منوانے کی بجائے قلم کا ہتھیار استعمال میں لایا جائے جس کے مدد سے پہلے خوابیدہ لوگوں کو جگا کر ان کو ان کے حقوق سے آگاہ کیا جائے اور پھر ان کو ایک تحریک کی صورت میں دلیل کے ذرئیعے اپنی بات منوانے پہ اکسایا جائے ۔
@alihaiderrr5