قانون امیر کا 

0
45

اس کائنات کا نظام تو خدا چلا رہا ہے مگر اس دنیا کا سماجی نظام امیروں کے ہاتھ میں آچکا ہے، اور وہ اس نظام کو اپنے فائدے کے لئے ہی چلا رہے ہیں۔ صرف پاکستان نہیں بلکہ اس دنیا کا قانون امیروں نے خود بنایا ہے، تو کیا آپ کو لگتا ہے کہ کوئی امیر ایسا قانون بنائے گا جو اس کے نہیں کسی غریب کے فائدے میں ہو؟

یقینا نہیں کوئی سرمایہ دار کسی مزدور کے لیے اچھی اجرت منتخب نہیں کرے گا۔ یہ تمام پارلیمنٹ میں امیر لوگ اپنے فائدے کے لیے ہی بناتے ہیں پاکستان کا قانون بھی امیروں کے فائدے کے لئے ہی بنا ہے۔
اس قانون میں یہ گنجائش رکھی گئی ہے کہ جو پیسا باہر گیا ہے اسکا کوئی ثبوت نہ ہو۔ بلکہ اس میں کالے پیسے کو سفید کرنے کے لئے گنجائش رکھی ہوئی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سب اکثر قانون کے دائرے میں رہ کر ہوتا ہے۔ اور اسکو عدالت میں ثابت کرنا تقریبا ناممکن ہے۔ اس لیے زرداری، نواز شریف، جانگیر ترین وغیرہ وغیرہ جیسے کرپٹ لوگ پکڑے نہیں جاسکتے۔ سب سے مزیدار بات عمران خان سمیت یہ سب امیر لوگ اس قانون کو بدلناہی نہیں چاہتے، کیوں کہ یہ قانون ان کے فائدے میں ہے، غریب کو غریب تر امیر کو امیر تر بنانا اس قانون کا ہی کمال ہے۔ عمران خان نے یہ نعرے صرف عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے لگائے اور کیونکہ اکثر لوگ اس بات کو نہ سمجھتے ہیں اور نہ ہی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں،اور بار بار بیوقوف بنتے ہیں۔ عمران خان کے اپنے ساتھیوں پر کرپشن کا الزام لگے ،انہوں نے کیا کیا؟

کچھ نہیں، یہ صرف پاکستان کا مسلہ نہیں، جیسا کہ یہ قانون پوری دنیا کے امیروں نے بنایا ہے اور اسکا مقصد انکے پیسے کو بڑھانا اور محفوظ کرنا ہے۔ تیسری دنیا کے اکثر ممالک اس کا شکار ہیں ۔ اور ایسی مثالیں ملنا بہت کم ہے کہ دنیا میں کبھی بھی کسی ملک کا لوٹا ہوا پیسہ واپس ملا ہو۔جیسے کہ عمران خان سے نہ آج تک پاکستان کا لوٹا ہوا پیسہ واپس لایا گیا نہ ہی چور پکڑے گئے، اور نہ ہی پکڑے جائیں گے یہ عوام کو پاگل بنانے کا ایک طریقہ ہے، جو عمران خان جیسے حکمران عوام کو بیوقوف
بنانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ 2018 میں 300 کنال کے بنی گالہ میں بیٹھ کر ریاست مدینہ کا نعرہ لگا اور ہماری مظلوم عوام بھی اس پر ایمان لے آئی, کیوں کہ ان حکمرانوں نے عوام کا شور ختم کردیا ہے۔

جب تک عوام اپنا شعور اجاگر نہیں کرے گی اور اپنے حق کے لیے کھڑی ہوکر پارلیمنٹ میں نہیں جائے گی، تب تک اسے مہنگائی غربت اور مفلسی میں ڈوبی زندگی گزارنی پڑے گی۔

Leave a reply