قصوروار کون تحریر : راجہ حشام صادق

ہر روز سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر اسے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں ۔خواتین کے ساتھ بڑھتے زیادتی کے واقعات دن با دن بڑھتے ہی جلے جا رہے ہیں پچھلی تحریر میں خواتین کی عزت ان کے مقام کے بارے میں لکھا تھا۔ لیکن تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے ۔جس طرح آج ریاست پر ایک تنقید ہوتی ہے کہ یہ کیسی ریاست مدینہ کی داودار حکومت کی حکومت میں ہو رہے ہیں ۔

سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جہاں اتنا ظلم ہوتا ہے اس ظلم میں ہر فرد شامل ہے۔ جو کام مدینہ جیسی پرامن ریاست میں بلکل بھی نہیں ہوتے تھے۔ جو برائیاں وہاں کے افراد میں نہیں تھیں۔ ہمارے معاشرے کے اندر تمام برائیاں پائی جاتی ہیں۔ رشوت، کرپشن، زنا اور قتل جیسے گھنائونے واقعات ہو رہے ہیں۔ اس کی ذمہ داری صرف حکومت وقت پر نہیں ہمارا کیا فرض بنتا ہے۔ ہم نے خود کا کیسے محاسبہ کرنا ہے ۔اپنے آپ کو کیسے بدلنا ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے۔نہ کہ حکومت کی کسی ریاست کا حاکم انفرادی طور پر کسی کی سوچ عادات یا اس کے اعمال نہیں بدل سکتا۔

ہمارے معاشرے میں خواتین کو ہراساں کرنا مردوں کی غلطی ہو سکتی ہے مگر دوسری طرف خواتین کے لباس وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے فیشن مختلف جگہوں پر خواتین اور مرد ایک ساتھ پارٹی کرتے نظر آتے ہیں۔ ہمارے کالجز اور یونیورسٹیز میں لڑکے اور لڑکیاں تعلیم حاصل کرنے کے نام پر غلط سرگرمیوں میں شامل ہوتے ہیں۔ جہاں اساتذہ بےپرواہ ہوتے ہیں۔ وہیں والدین بھی اپنی ذمہ داری سے دستبردار ہو جاتے ہیں۔

یہاں یہ کہوں گا کہ جس ملک کی بنیاد اس نظریہ پر رکھی جائے جہاں مرد اور خواتین ایک گاڑی کے دو پہیئے ہوں ۔جہاں مرد اور خواتین ایک ساتھ کام کرتے نظر آئیں۔ جس ملک پر عورت کو حکمرانی کا حق مل چکا ہو ۔ جس ملک کی بنیاد خواتین کی مکمل آزادی پر رکھی جائے جہاں چادر اور چاردیواری کا تصور ختم ہو جائے وہاں ایسے واقعات صرف مردوں کی غلطی نہیں ہوتی۔اس جرم میں خواتین کا کردار بھی اہم ہوتا ہے۔ ریاست مدینہ کی بات کرنے والوں پر اس وجہ سے بھی تنقید ہو رہی ہوتی ہے کیونکہ وہ خواتین کے تحفظ کے ساتھ ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے کی بات کرتے ہیں۔کیسے ممکن ہے کہ اسلامی فلاحی ریاست کے ساتھ وہ قوانین اور آزادی بھی چلتی رہے۔جو اس ملک کے اندر خواتین کو حاصل ہے۔
یاد رکھیں جس معاشرے کے اندر خواتین کو بیٹے شوہر اور باپ پر برتری حاصل ہو وہاں پر حکمرانی عورت کی ہو وہاں پھر قصور صرف مرد کا نہیں ہوتا۔ وہاں تنقید صرف حاکم وقت پر نہیں ہونی چاہیئے۔

ہمارے عظیم لیڈر قائد اعظم محمد علی جناح نے اس ملک کے لئے جدوجہد کی دو قومی نظریہ پیش کیا لیکن الگ ریاست کے قیام کے بعد اس کے اندر ان نظریات کی نفی کر دی گئی اور بہت سارے ایسے نئے نظریات نے جنم لیا جس کی وجہ سے یہ قوم منتشر ہو گئی انتظامی طور پر بھی دیکھا جائے تو تقسیم کے وقت جو کچھ ہوا شاید وہ قربانیاں بھی اس جدوجہد سے کہیں زیادہ دی گئی تھیں۔ انگریزوں سے پہلے مسلمان حکمران تھے وہاں سے آزادی کے وقت اتنی قربانیوں کے باوجود آج تک غلامی کرتے آ رہے ہیں حقائق سے پردہ جس دن اٹھ گیا یا جس دن سچ کا سامنا اس قوم نے کر لیا اور سچ بولنا لکھنا شروع کر دیا تو شاید آزاد قوم کی حیثیت سے سامنے آئیں لیکن شاید ابھی اس قوم کے اندر برداشت نہیں ہے۔ جو حق اور سچ کا سامنا کر سکے جو اس ملک کی بنیاد رکھے جاتے وقت کی تاریخ کو واضح الفاظ میں بیان کر سکے۔

اللہ پاک ہم سب کو سمجھ کر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔آمین
پاکستان زندہ باد۔

@No1Hasham

Comments are closed.