قصہ درد:حکومت پاکستان، چیف منسٹر اور وزیر تعلیم کے نام
تحریر:مبشرحسن شاہ
ہے بجا شیوۂ تسلیم میں مشہور ہیں ہم
قصۂ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
جب سے ہوش سنبھالا ہے، شعبۂ تعلیم کے بیڑے کو طلاطم خیز موجوں سے نبرد آزما پایا۔ بہرحال، چلتے، گرتے، لڑکھڑاتے 2011 میں سولہ سالہ تعلیم مکمل کر لی اور بزعم خود نکلے تیری تلاش میں (سفرنامہ مستنصر حسین تارڑ، "سفر یورپ”) کے مصداق کام کاج یعنی نوکری کی تلاش میں نکلے تو چودہ طبق روشن ہو گئے۔ حقیقی معنوں میں آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوا۔ ویسے تو یہ محاورہ ہے، لیکن عملی زندگی کی پہلی 10 ہزار ماہانہ تنخواہ کے عوض نوائے وقت کے ہاتھ لگے تو پہلی ہی اسائنمنٹ بازار سے اشیائے خور و نوش کے دام معلوم کرنا تھی اور پھر اس پر خبر نگاری کہ مہنگائی کے مارے عوام کی حالت کیسی ہے۔
خیر وقت کی ایک خوبی ہے کہ وہ رکتا نہیں۔ 2017 میں ایک پروانۂ تقرری گھر پر بذریعہ ڈاک موصول ہوا، جب کہ ہم تو "چڑی بیچاری کی کرے، ٹھنڈا پانی پی مرے” پر عمل کرتے ہوئے ایمان لا چکے تھے کہ سرکاری ملازمت کا صرف ٹیسٹ ہوتا ہے، بھرتی نہیں۔ خیر طوالت سے اختصار کی جانب چلتے ہیں۔ یکم اگست 2017 کو 22 ہزار 380 روپے کے عوض سرکار نے ہماری خدمات بسلسلۂ تدریس حاصل کر لیں۔ تقرری کا پروانہ تھما کر 35 کلومیٹر کے فاصلے کی مدد سے ہماری خطیر تنخواہ کو مینج کیا گیا چونکہ تنخواہ کی زیادتی سے افراطِ زر کا خدشہ تھا۔
بھنور میں گھری ناؤ کے پتوار تھامنے کا موقع 2019 میں ملا جب پرائمری اسکول کی ہیڈ شپ کے نام پر دو کنال رقبے پر ہمارے نام کا سکہ چلنے لگا۔ نوکری کبھی بھی ہمارے لیے باعثِ آمدن نہ رہی لیکن اب وجۂ عزت بھی نہ رہی کیونکہ ہیڈ ماسٹری میں عزتِ سادات بھی گئی۔
حکم ہوا مچھروں کا قلع قمع کرو، ارشاد پر کورنش بجا لا کر تلاشِ دشمنِ نمرود شروع کی۔ شام کو ایک عدد مچھر گرفتار ہوا۔ "مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی” لہٰذا مچھر کو قتل کیا، ہتھیلی پر لیے پھرتے، جو جان وہ بچانے کے لیے مقتول کی لاش کا فوٹو بھیجا اور لگے متوقع توصیف پر اظہارِ عاجزی کی مشق کرنے کہ اتنے میں تختِ لاہور سے بگڑے تیور تختِ بابری سے ہوتے دو سے ضرب کھاتے ہم پر ایسے تقسیم ہوئے کہ سب خساروں کو جمع کر کے یہ حاصل نکلا کہ دلِ نادان کی کوئی بات نہ مانی جائے۔
پھر تو ایک طوفان تھا جس کی زد میں آئے۔ نوکری کے دیے کو جلانے کے لیے سانسوں کی مالا پر "جی سر” کہتے 7 سال ایسے گزرے جیسے کسی شہرِ ویران پر وقت گزرے۔
2024 میں بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا کہ "میاں! تیرے آن تے کھڑاک بڑے ہون گے” (لاہور انارکلی 2024 میں لگا بینر)۔ دل نے تسلی دی کہ معاملات بہتر ہوں گے۔ تختِ لاہور پر بنتِ خاتونِ اول براجمان ہوئیں تو مراد راس کے محاذ پر رانا سکندر حیات کو تعینات کیا گیا۔ اب سمجھ آئی کہ سکندر نوجوانی میں کیوں قتل ہوا تھا۔
علم ہوا کہ وزیرِ اعلیٰ و ادنیٰ دونوں تعلیمی میدان میں کودے ہیں، لیکن یہ کودنا وہ کودنا نہیں جو عشق آتشِ نمرود میں کودا تھا، بلکہ یہ تو "کھیل سکتے نہیں، اب ہمیں بھی نہیں کھیلنے دیں گے” والا کودنا ہے۔ ایس ایس ایز، اے ای اوز دو کیس، جو انتہائی آسانی سے ایک پُرسکون ماحول میں ایڈریس کیے جا سکتے تھے، ان کو ہر حکومت نے ایسے خراب طریقے سے ڈیل کیا گویا یہ لوگ انسان نہ ہوں۔
سال کا کنٹریکٹ، ہر 365 دن کے بعد کیا ہوگا کی غیر یقینی، کسی بھی سرکاری ملازمت میں پہلے سے سرکاری ملازم ہونے کا فائدہ صفر، حکومتی پروگرامز (نظامت حج ایک مثال) کے لیے اہل نہیں کہ کنٹریکٹ پر ہیں۔ اے ای اوز کو 2017 میں بھرتی کیا تو یہ شق احکاماتِ تقرری میں شامل تھی کہ اے ای اوز اسکولوں میں بطور ٹیچر ٹرانسفر نہیں ہوں گے، یہ انتظامی عہدہ ہے، اس پر ہی رہیں گے۔ پھر کسی نے صلاح دی کہ ان کا سروس اسٹرکچر تو بنا لیتے، یہ ساری زندگی اے ای او ہی رہیں گے؟ اس کا سکہ شاہی حل یہ نکلا کہ کچھ کو سکولوں میں بطور ٹیچر بھیجا، کوئی مرضی سے گیا، کوئی سکول سے نکال کر نواز دیا گیا۔
ایم ای ایز کو مسلط کرنے والے گجرات سے کبھی رائے ونڈ تو کبھی بنی گالا، اور ان کی نازل شدہ مخلوق کے ستائے اساتذہ کبھی معطل تو کبھی پیڈا۔ حد یہ ہے کہ ایم ای ایز کے حوصلے اتنے بڑھے کہ خواتین اساتذہ محکمۂ تعلیم کے مجاز افسران سے چھٹی مانگیں تو جواب ملا: "ایم ای اے صاحب سے خود پوچھو پہلے”۔
بندہ پوچھے، یہ سکیل و تعلیم میں کم (محکمہ زراعت) کے نیم خواندہ، "یس سر، آرڈر از آرڈر” کے پروردہ اپنی ذات میں ہیرو کس اتھارٹی کے تحت چھٹیاں منظور کر رہے؟
اوپر سے کبھی ایک لایعنی بات بصورتِ حکم، کبھی دوسری۔ اب ملکۂ معظمہ نے کہا پودے لگانے، "کلین اینڈ گرین ایپ” اساتذہ کے سر میں دے ماری۔ سڑکوں پر زیبرا کراسنگ، اساتذہ رنگ لے کر ہر اس رنگ میں ڈوبیں، جس نے جس رنگ میں چاہا انہیں رسوا کرنا…
گندم خریداری، ووٹر لسٹس، کورونا ڈیوٹیز، پولیو مہم۔ یو پی ای ٹارگٹ (یونیورسل پرائمری ایجوکیشن ) اس کی مزید شاخیں، انرولمنٹ ڈرائیو، اینرجنسی انرولمنٹ کمپین،وژن 2025 ( پاکستان برینڈ اشتہاروں والا) ہر سکول ہر روز داخلہ فروری و مارچ، مردم شماری،پوسٹ اینموریشن سروے، آؤٹ آف سکول چلڈرن۔ زراعت شماری ۔ سٹوڈنٹ ہیلتھ پروفائل(بچوں کو ہسپتال لے کر جانا واپس آنا ) فروری یوم یکجہتی کشمیر پر اساتذہ انگیج، 15 فروری جشن بہاراں و شجر کاری ہر بچہ ہر استاد ایک پودا، مارچ کلچر ڈے، افسران بالا کے مزید بالا افسران کو خوش کرنے کے لیے فرمائشی پروگرامز، اب ڈے ٹائم Meal اساتذہ کے ذمے وصولی و تقسیم( پائلٹ پراجیکٹ ابھی چند اضلاع تک محدود) یوم مزدور، یوم آزادی ( کون سی؟)
یومِ قائد، یومِ اقبال، یومِ پاکستان دیگر اہم ایام، سب پر اساتذہ کو پابند کیا جاتا کہ تصویر بھیجیں مکمل انتظامات کے ساتھ فنکشن کر کے۔
ادھر 2018 کے بعد سے اب تک ٹیچر جابز نہ دے کر پہلے موجود اساتذہ سے کام لیا جاتا ہے ،آدھے ریٹائر، کچھ فوت، کچھ مستعفی ،کچھ معطل، کچھ کو ریموول فرام سروس کا تمغہ۔ ابھی چند یوم قبل ایک انوکھا حکم نامہ بھی جاری ہوا قحط سالی حالیہ خشک موسم میں مسائل پر میٹنگ، اساتذہ و بچوں سے نماز استسقاء پڑھوائی گئی ، ایک ایپ ہے ایس آئی ایس اس سے اساتذہ واقف ہوں گے اس ہربچہ داخل کرتے وقت آن لائن کوائف میں غیر ضروری طوالت، PMIU, PITB کے درمیان مالی تنازعات ،اساتذہ کی اے سی آر چھٹیاں وغیرہ اکثر زیر التوا،کارپورل پنیشمنٹ کے جھوٹے کیس، پاکستانی پرچم کے ساتھ کشمیر کا پرچم ( اب لگتا آیا فلسطین کا بھی) سکول میں کریکٹر بلڈنگ کونسل، واش کلب، ڈے ماسٹر، ( اساتذہ الگ بچے الگ) اس سب میں آپ سوچ رہے ہوں گے پڑھائی کدھر ہے؟؟؟؟؟؟ جی میں بھی یہی رونا رو رہا ہوں کہ ہڑھانے دیں۔
اب میڈیم چیف منسٹر نے ویژن 2025 میں ارشاد فرمایا ہے’ پڑھتا پنجاب، بڑھتا پنجاب، ادھر وزیر کم گینگسٹر جٹ کو قلم مل گئی اس نے تباہی تو تعلیم کی، کیا تباہ شدہ کو مزید تباہ بچہ بھی کر لیتا ،یہاں منتری صاحب نے نیا کام شروع کیا کہ اساتذہ مفت میں اتنی تنخواہیں لیتے، چور، نکمے جس وقت جو دل کیا کہہ دیا ،اپنی تنخواہ 900 فیصد بڑھا کر بھی کم ہماری ہر طرف سے کاٹ کر بھی زیادہ۔ ساتھ ہی سکولوں کی نجکاری، اساتذہ کو ایسے ڈیل کرنا جیسے یہ اساتذہ نہیں بھارتی جاسوس ہیں ۔
وزیر تعلیم جناب عزت مآب سر سکندر کی ڈکشنری بھی نئی نکلی۔ سرکاری ٹویوٹا ویگو کو "ڈالا” کہتے ہیں اور ہر روز کسی نہ کسی محکمے کے افسر کو تڑی لگاتے ہوئے ویڈیو اپ لوڈ کر دیتے ہیں۔ "میں ریفرنس ٹھوکیا تے پنشن بند۔ بدھ نوں میٹنگ اے ہوم منسٹر نال، جمعرات نوں میں کڑاکا کڈھاں گا۔ سی او صاحب تہانوں سی او میں لایا اے۔” اللہ کرے کہ کہیں بوری بند لاش یا "نامعلوم افراد” والی دھمکی نہ آ جائے۔
لکھنے کو بہت کچھ ہے، کہنے کو ہزار شکوے، لیکن ہم فقیروں کی طبیعت بھی غنی ہوتی ہے۔ سرکاری سکول نجی نہ کریں، ملازمین کو مستقل کریں اور پنشن قوانین کے حوالے سے کوئی درمیانی راستہ نکال لیں۔ باقی جو جوتے اور پیاز ہم کھا رہے ہیں، کھاتے رہیں گے۔ بلکہ اگر واقعی جوتے مارنے کی نوبت آئی تو دو کا حکم ہوگا، افسران بالا احتیاطاً چار ماریں گے اور ہم عادتاً دو مزید کھا لیں گے تاکہ کوئی کمی نہ رہ جائے۔
تعلیم کو سنجیدگی سے نہ لینا آپ کی مرضی، ہم اساتذہ کافی ہیں، کچھ نہ کچھ کر لیں گے۔ بس آپ ذرا ہاتھ ہلکا رکھیں۔ کیا کسی دن کوئی استاد یا استانی خودکشی کرے گا تو تب آپ کو ہماری بات سمجھ آئے گی؟
کتنے اساتذہ کو صرف اپنا حق مانگنے پر گرفتار کریں گے؟ کتنوں کو پولیس کے ہاتھوں ذلیل و رسوا کرائیں گے؟ تھانوں میں مار، دھکے، گالیاں… کل رات سے حکومت اساتذہ کے مطالبات کے جواب میں انکار اور احتجاج کے ردعمل میں تادیبی کارروائیاں کر رہی ہے۔ مارتے بھی ہیں اور رونے بھی نہیں دیتے۔
بہرحال، 21 فروری سے اساتذہ ایک بار پھر سڑکوں پر ہیں۔
سنا ہے شہر میں زخمی دلوں کا میلہ ہے،
چلیں گے ہم بھی مگر پیرہن رفو کر کے۔
ہم لوگ تو کچھ گزاری، کچھ گزری، باقی جو قیدِ حیات بچی ہے وہ بھی کاٹ لیں گے۔ لیکن سوچیں! تعلیمی نظام کو برباد اور غیر فعال کر کے آنے والے سالوں میں نقصان کس کا ہوگا؟ ملک کا!
خدارا، کنٹریکٹ بیسڈ سیاست دانوں! پانچ سالہ مدت کے لیے کسی اور محکمے پر تجربات کر لو۔ یہاں تو جسے نشانہ لگانے کی مشق کرنی ہو، سیب ہمارے ہی سر پر رکھا جاتا ہے۔
عام پاکستانی جو یہ تحریر پڑھے، وہ اسے سمجھے اور دوسروں کو بھی بتائے، کیونکہ یہ نیرو نما حکمران چند سال بعد بانسری بجاتے بیرونِ ملک ہوں گے، جبکہ یہاں رُل جانا ہم نے ہے۔
ہم نے کچھ زیادہ نہیں مانگا—بس نوکری کی مستقلی اور پنشن قوانین پر نظرثانی۔ اگر یہ بھی کر دیں تو بھلا، نہ کریں تو بھی خیر! لیکن کم از کم ہمیں پڑھانے تو دیں، سکول تو نہ بیچیں!
ہم اپنی کوشش جاری رکھیں گے، اللہ مدد کرے گا، ملکی حالات بہتر ہوں گے اور یہی نظام بہتری کی طرف گامزن ہوگا۔ بچوں سے بنیادی، سستی اور معیاری تعلیم نہ چھینیں۔ غریب کا بچہ بمشکل ہی افسر بنتا ہے، لیکن اگر تعلیم چھین لی گئی تو یہ واحد راستہ بھی بند ہو جائے گا۔
صاحب! آپ کی کرسی سلامت، یہ بیچارے کمپیٹیشن میں نہیں آتے۔ یہ تو زیادہ سے زیادہ 10ویں کے بعد فوج میں، 12ویں کے بعد بیرونِ ملک، یا بی اے/ایم اے کے بعد معمولی نوکری کے خواب دیکھتے ہیں۔ اب ہماری جیب پہلے ہی بہت وزنی ہو چکی ہے، اب بس کر دیں!
کل آپ ہی کے بچوں نے آپ کی کرسیاں سنبھالنی ہیں، مگر تب تک حکمرانی کے لیے رعایا ہی باقی نہیں رہے گی۔
جلوسِ اہلِ وفا کس کے در پر پہنچا ہے؟
(اساتذہ، حکومتی ایوان کے باہر وعدہ وفا ہونے کے منتظر)
نشانِ طوقِ وفا زینتِ گلو کر کے
(کنٹریکٹ ختم ہونے کو ہے، مگر پھر بھی فکرِ تعلیم باقی ہے)
کوئی تو حبسِ ہوا سے یہ پوچھتا، محسنؔ
ملا ہے کیا اسے کلیوں کو بے نمو کر کے؟