قیام امن کے لئے کورٹ مارشل کا دائرہ کار وسیع کیا جائے، ازقلم غنی محمود قصوری

جب تک امن و امان قائم نا ہو قومیں ملک اور معاشرے ترقی نہیں کر سکتے

انسان خطا کا پتلا ہے اور اس سے کئی طرح کی خطائیں ہوتی رہتی ہیں جن کی اصلاح کیلئے احتسابی نظام بنایا جاتا ہے تاکہ خطاء پر سزا دے کر اصلاح کی جاسکے اور آگے سے دوبارہ خظا نا ہو

ہمارے معاشرے میں ہر فرد کے احتساب کا قانون موجود ہے جس کے تحت سزائیں و جرمانے کئے جاتے ہیں

جیسا کہ سویلین کے لئے کئی طرح کی عدالتیں قائم ہیں جن میں مقدمات چلا کر سزائیں دی جاتی ہیں تاہم سب سے مشکل اور کٹھن احتساب فوج کا ہے جسے کورٹ مارشل ( عسکری عدالت) کہتے ہیں جو کہ 1951 کو شروع کیا گیا اور آج بھی موجود ہے اور اسی کے ذریعے فوجی ججوں پر مشتمل عدالت میں مسلح فوج کے افسروں و جوانوں پر جنگی نظم و ضبط کی خلاف ورزی کی صورت میں مقدمات چلا کر سزائیں دی جاتی ہیں تاہم سویلین پر بھی کورٹ مارشل لاگو ہے کیونکہ فوج کے اندر بہت زیادہ سویلین بھی کام کرتے ہیں جیسا کہ ڈاکٹرز ،پیرا میدیکل سٹاف اور دیگر شعبوں میں سویلین تعینات ہیں اس لئے ان کا بھی کورٹ مارشل کیا جاتا ہے جیسا کہ 2018 میں آرمی ہسپتال میں تعینات سویلین ڈاکٹر وسیم اکرم کو آفیسرز سیکرٹ ایکٹ کے تحت سزائے موت کی سزا سنائی گئی اسی طرح بریگیڈیئر راجہ رضوان کو ملک دشمن ایجنسی را سے معاونت پر آفیسرز سیکرٹ ایکٹ کے تحت سزائے موت سنائی گئی

کورٹ مارشل کا ٹرائل زیادہ تر دو سے چھ دن میں کر دیا جاتا ہے اور دوران ٹرائل ملزم کو اپنے دفاع کا پورا موقع فراہم کیا جاتا ہے

عسکری عدالت سے سزا یافتہ فوجی دوبارہ ڈیوٹی نہیں کر سکتا اور اس کو مراعات بھی نہیں دی جاتیں اور کریمنل ریکارڈ بنا کر پوری زندگی کسی بھی سرکاری محکمے میں نوکری کرنے سے روک دیا جاتا ہے اور اس کی سزا کو مکمل کئے بغیر ختم نہیں کیا جاتا

سول اور عسکری احتساب میں کافی فرق ہے جیسا کہ سویلین مقدمے میں سزا پانے والے قیدی کو اپنی سزا پر التجاء کرنے کا حق ہوتا ہے جیسا کہ سزائے موت کا قیدی اپنی سزا کو عمر قید میں یا صدر پاکستان سے رحم کی اپیل کی صورت میں کم کروا سکتا ہے جبکہ عسکری عدالت سے سزا پانے والا قیدی ایسے طریقے سے مستفید نہیں ہو سکتا

سول گورنمنٹ ملازمین پر کرپشن و بدعنوانی کے مقدمات سول کورٹس و محکموں کی کمیٹیوں میں نمٹائے جاتے ہیں جن کا دائرہ کار بہت لمبا ہوتا ہے بعض دفعہ سالوں سال لگ جاتے ہیں اور جرم ثابت ہونے پر معمولی سزا دی جاتی ہے مگر جبکہ کریمنل ریکارڈ بھی نہیں بنایا جاتا زیادہ تر تو معطل ملازمین کو چند ماہ بعد ہی باعزت بری کر دیا جاتا ہے اور ساری رکی ہوئی مراعات بھی دی جاتی ہیں جس سے ان کرپٹ عناصر کو مذید شہہ ملتی ہے

اس وقت پاکستان کے محکموں میں کرپشن کی انتہا ہے خاص طور پر محکمہ پولیس میں بغیر رشوت کے کام ایک معجزہ ہی تصور کیا جاتا ہے اور سب سے زیادہ قانون شکنی بھی محکمہ پولیس میں ہوتی ہے حالانکہ آئین پاکستان 1973 کی دفعہ 8 کے تحت پولیس کا کام امن و امان کی بحالی ہے مگر پاکستان کی کل ساڑھے 4 لاکھ پولیس رشوت کا گڑھ اور لوگوں کے لئے خوف کی علامت ہے جبکہ آئے روز پولیس ملازمین کی طرف سے لوگوں سے پیسے لے کر مخالفین کا ماورائے آئین و عدالت قتل کرکے پولیس مقابلہ قرار دیا جاتا ہے

پولیس کے خلاف مقدمات سول عدالت میں چلتے ہیں کمزور عدالتی نظام اور گواہوں کو ڈرا دھمکا کر یہ صاف بچ نکلتے ہیں زیادہ تر عدالتوں سے مقدمات میں سے بچ نکلنے والے پولیس اہلکاران و افسران مذید دہشت و خوف کی علامت بن جاتے ہیں جیسا کہ سندھ پولیس کا راؤ انوار جعلی پولیس مقابلوں کے باعث خوف کی علامت بنا ہوا ہے اور اسی کمزور نظام کے باعث ہر بار صاف بچ جاتا ہے حالانکہ نقیب اللہ معسود کے قتل کے کافی شوائد بھی اسے سزا نا دلوا سکے

اس لئے وقت کا تقاضہ ہے کہ سول محکموں خاص طور پر پولیس اصلاحات کیلئے کورٹ مارشل کا دائرہ کار وسیع کرتے ہوئے آئین پاکستان 1973 کی دفعہ 8 ،(3) میں ترمیم کی جائے اور پولیس اہلکاران کا کورٹ مارشل کیا جائے تاکہ معطل ملازم دوبارہ بحال نا ہو اور دوسرے اس سے عبرت حاصل کریں

جس دن پولیس نظام ٹھیک ہو گیا اسی دن ملک پاکستان سنورنا شروع ہو جائے گا کیونکہ جب کسی کی چوری ہوتی ہے تو اسے اپنی ایف آئی آر درج کروانے کیلئے پولیس کو مذید رشوت دینی پڑتی ہے سو مجبوراً وہ بندہ رشوت دیتا ہے اس کی چوری چاہے ملے نا ملے رشوت کے بغیر کام نہیں چلتا سو وہ بندہ اپنی چوری و رشوت کی کمی پوری کرنے کیلئے کسی دوسرے کو مالی نقصان پہنچاتا ہے اگر وہ تاجر ہے تو اپنے دام تیز کر دے گا اگر وہ ملازمت پیشہ ہے تو لوگوں سے جائز کام کے عیوض رشوت لے گا اور اسی طرح آگے سارا نظام خراب ہوتا جائے گا

موجود حالات کا تقاضہ ہے کہ سی سی پی او لاہور عمر شیخ کی پیش کردہ سمری کے مطابق قیام امن کے لیے کورٹ مارشل کا دائرہ کار وسیع کیا جائے

Shares: