
قیدی نمبر 804 کو 14 سال سزا، عدلیہ کا بڑا فیصلہ
تحریر: شاہد نسیم چوہدری
کہا جاتا ہے کہ انسان جو کچھ بوتا ہے، بالآخر وہی کاٹتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے ایک غیرمعمولی موڑ پر، سابق وزیرِاعظم عمران خان کو 190 ملین پاؤنڈ چوری کیس میں 14 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ یہ فیصلہ نہ صرف پاکستان کی سیاست میں ہلچل کا باعث بنا بلکہ اس نے اخلاقیات اور سیاست کے گرد ایک بار پھر سوالیہ نشان لگا دیا۔ 190 ملین پاؤنڈ کی رقم، جو برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی کی تحقیقات کے دوران برآمد ہوئی، کو پاکستانی حکومت کو واپس کر دیا گیا تھا۔ عمران خان پر الزام تھا کہ انہوں نے اس رقم کو قومی خزانے کے بجائے اپنے ذاتی اور سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا اور یہ رقم دوبارہ ملک ریاض کو دے دی۔ اسی رقم کو ایک فلاحی ادارے کے طور پر رجسٹرڈ القادر یونیورسٹی کے لیے زمین کے حصول میں استعمال کیا گیا۔
عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر الزام ہے کہ انہوں نے اس رقم کے بدلے بحریہ ٹاؤن کے مالک سے قیمتی زمین حاصل کی، جو القادر یونیورسٹی کے نام پر منتقل کی گئی۔ احتساب عدالت کی جانب سے عمران خان کو 14 سال قید اور ان کی اہلیہ کو 7 سال قید کی سزا نے ملک کے سیاسی اور سماجی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے۔ یہ فیصلہ جہاں ان کے سیاسی کیریئر پر سنگین اثر ڈالے گا، وہیں ان کے چاہنے والوں کے لیے ایک دھچکے سے کم نہیں۔ عمران خان، جو خود کو ہمیشہ کرپشن کے خلاف ایک مضبوط آواز کے طور پر پیش کرتے رہے، آج اسی کرپشن کے الزامات میں سزا یافتہ ہیں۔
عمران خان کی سیاست کا محور ہمیشہ انصاف، شفافیت، اور بدعنوانی کے خلاف جنگ رہا ہے۔ وہ دوسروں پر سخت تنقید کرتے ہوئے یہ دعویٰ کرتے رہے کہ ان کا دامن صاف ہے اور وہ "نئے پاکستان” کے معمار ہیں۔ لیکن آج ان پر لگنے والے الزامات اور ان کی سزا نے ان دعووں کو متنازع بنا دیا ہے۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عمران خان واقعی وہ رہنما ہیں جن کا دامن صاف تھا، یا وہ بھی اس نظام کا حصہ بن چکے تھے جسے وہ بدلنے کا وعدہ کرتے رہے؟
عمران خان کے حامیوں کے لیے یہ فیصلہ ایک بڑا صدمہ ہے۔ وہ اسے سیاسی انتقام قرار دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ عمران خان کو سیاست سے باہر کرنے کے لیے یہ سب کچھ کیا گیا۔ دوسری طرف، ان کے مخالفین اس فیصلے کو انصاف کی فتح قرار دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہے، جہاں دونوں فریقین اپنی اپنی دلیلیں پیش کر رہے ہیں۔ اس فیصلے کے بعد عمران خان کی جماعت تحریک انصاف ایک نئی آزمائش سے گزر رہی ہے۔ قیادت کا خلا، حامیوں میں مایوسی، اور احتجاجی حکمت عملی کے سوالات نے پارٹی کو ایک مشکل صورتحال میں ڈال دیا ہے۔ حکومت نے اس فیصلے کو عدلیہ کی آزادی اور قانون کی بالادستی کا مظہر قرار دیا، لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ اس میں سیاسی عنصر غالب ہے۔
یہ کیس پاکستان کے سیاسی کلچر کے لیے ایک اہم سبق ہے۔ اقتدار کے نشے میں اکثر سیاستدان یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ اپنے اعمال کے جواب دہ ہیں۔ یہ فیصلہ اس بات کا ثبوت ہے کہ احتساب کا عمل شروع ہو چکا ہے، لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ یہ عمل غیر جانبدار اور شفاف ہو۔ اگر عمران خان پر لگے الزامات درست ہیں، تو یہ ان کی ناکامی کا نتیجہ ہے، اور اگر یہ انتقامی سیاست ہے، تو یہ ہمارے نظام کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔
عمران خان کی 14 سال قید کی سزا نہ صرف ان کی ذاتی زندگی اور سیاسی کیریئر پر اثر ڈالے گی، بلکہ یہ پاکستان کی سیاست کے لیے بھی ایک فیصلہ کن لمحہ ہے۔ عوام، سیاستدان، اور عدلیہ کو اس موقع سے سبق لینا ہوگا۔ آج جو کچھ عمران خان کے ساتھ ہوا، وہ کل کسی اور کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم خود احتسابی کریں اور ایک ایسا نظام تشکیل دیں جو واقعی انصاف اور شفافیت پر مبنی ہو۔
آج کا عمل کل کا نتیجہ طے کرتا ہے۔ انسان جو کچھ کرتا ہے، وہی اس کی تقدیر میں شامل ہو جاتا ہے۔ اچھے اعمال انسان کے لیے خوشیوں اور سکون کا سبب بنتے ہیں، جبکہ برے کام دکھ اور پشیمانی کا۔ قدرت کا قانون یہی ہے کہ انسان کو وہی لوٹایا جاتا ہے جو وہ دوسروں کو دیتا ہے۔ اگر ہم دوسروں کے لیے اچھائی کریں گے، تو کل ہمیں اچھائی ہی ملے گی۔ برائی کا انجام ہمیشہ برا ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیں سوچ سمجھ کر اپنے اعمال کو چننا چاہیے، کیونکہ آج کا فیصلہ کل کی زندگی کا عکس بنے گا۔ "جس” نے جو کچھ بویا تھا، آج اس کی فصل تیار ہو چکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم سب، بحیثیت قوم، اپنے اعمال کی فصل کاٹنے کے لیے کب تیار ہوں گے؟