قید مسلسل تحریر: سید مصدق شاہ

0
33

وہ پورا دن گھر میں بند رہتی کوئی محلے والے بھولے بھٹکے میلاد قرآن خوانی کی دعوت دینے آ جاتی تو آجاتی
زیادہ تر تو اس سے خائف نہیں رہتیں
بڑے نخرے ہیں نہ ملنا نہ جلنا
دیوار سے دیوار ملی ہے
مگر مجال ہے جو کبھی آس پڑوس میں چکر لگا لیں۔
نہ کبھی کسی دعوت میں گئی نہ جنازے میں ۔
ایسا بھی بھلا کیا ہے
عورت ہے پیٹھ پیچھے اس کی برائیاں کرتی اور وہ جو سب کی نظر میں بری تھی کسی سے کیا کہتی
اسے تو اس کے سگے بہن بھائی خائف رہتے باقی رشتہ داروں کا کیا کہنا
تم تو عید میں بھی نہیں اتی اب میں نہیں آؤں گی دو سال پہلے بہن عید پر ملنے آئیں تو کہتے ہوئے گئی تھی دو سال سے وہ بہن سے ملیں بھی نہ تھی
باجی ملنے نا او فون پر ہی بات کر لیا کرو چھوٹا بھائی سال بھر پہلے شدید بیماری سے صحتیاب ہو کر آیا تھا تو شکوہ کر گیا تھا پھر وہ بھی نہ آیا وہ کسی کو کیا بتاتی وہ کیسے ان سب سے ملنے کو تڑپتی ہے بھائی کی بیماری پر اس کا بس نہ چلتا تھا کہ اڑ کر اس کے پاس پہنچ جائے بہن بھانجے بھانجی بھتیجے بھتیجی سب سے ملنے کو ترستی مگر وہ تو ایک قید مسلسل میں مبتلا تھی۔
اس کو یاد تھا کہ اس کی شادی کیلئے بیوہ ماں نے کتنے مشکلیں اٹھائی تھی کہیں بات ہی نہ بن پاتی تھی
عمر تھی کہ نکلتے ہی جارہی تھی اور رشتہ ہو ہی نہیں پاتا باپ سر پر نہ تھا۔ چھوٹا بھائی اور ماں روز و شب اس کے لیے پریشان رہتے۔ بہن الگ ہر جگہ رشتہ تلاش کرتی پھرتی
کمی کوئی نہ تھی بس کسی کو عمر پر اعتراض ہوتا تو کسی کو رنگ پر ہوتا تھا آخر کار اس نے امید توڑ دی ماں کے پیچھے لگ کر چھوٹے بھائی کی شادی کرادی گئی یہ کیوں میری وجہ سے جوگ کاٹے
میرے نصیب میں ہوئی تو ہو ہی جائے گی ماں نے نمناک آنکھوں سے حامی بھرلی بیٹے کئی دنوں سے بدلہ راویہ ماں کو ہولا رہا تھا جیسے امبر نے زبان دے دی تھی بھابی آئیں تو مانو گھر میں بہار آگئی
کچھ عرصہ بعد ہی امبر کے لیے ایک رشتہ آگیا لڑکا کویت میں 13 سال گزار کر آیا تھا یہاں آکر کاروبار کرنے لگا تھا آگے پیچھے کوئی تھا نہیں
بس عمر چالیس سے قریب تھی کوئی
ماں کو اعتراض ہوا مگر پھر ہاں کردی بہو آگئی تھی اس کا کھوٹا کمزور ہوچکا تھا جیسے تیسے امبر کی شادی ہوگی شادی کے دو ماہ بعد ماں ہی دنیا سے رخصت ہو گئی جیسے بس بیٹی کی شادی کا ہی انتظار تھا
اطہر اور امبر کے مزاج میں آسمان زمین کا فرق تھا شادی کے اگلے دن ہی امبر کو اطہر کے تنگ نظر ہونے کا پتہ چل گیا تھا مگر وہ ماں سے چھپا گئی وہ پہلے ہی اس کی وجہ سے اکتیس سال اذیت میں مبتلا رہی تھی
بس پھر امبر اطہر کی لگائی گئی پابندیوں میں جینا سیکھ ہی گئی
اسے اپنے گھر جانے کی اجازت نہ تھی ماں کی زندگی میں بھی اطہر کی مرضی ہوتی تو لے جاتا ورنہ وہ تڑپتی رہ جاتی اور اب تو اطہر کے نزدیک اس کا میکہ ختم ہو چکا تھا امبر کے بہن بھائی سے اطہر کو چیڑ تھی اسے وہ بہت تیز لگتے تھے بہکانے والے،
محلے میں جانے کی امبر کو اجازت نہ تھی اطہر کو عورتوں کا مفل میں جانا آوارگی لگتا تھا اطہر گروسری وہ خود لاتا عید کے کپڑے تک خود ہی لا دیتا امبر سارا دن گھر میں قید رہتیں دروازوں کھڑکیوں پر اطہر نے بڑے بڑے پردے ڈال رکھے تھے کہ بے پردگی نہ ہو چھت پر اسے جانے کی اجازت نہ تھی کبھی باہر گول گپے والا آتا تو وہ تڑپ جاتی ہیں
شادی سے پہلے وہ ان چیزوں کے شوقین تھے اطہر نے شادی کی رات ہی اسے موبائل کے نقصانات پر درس دیتے ہوئے اس سے عہد لیا تھا کہ وہ اس خرافات سے دور رہے گی اماں سے رابطہ وہ اطہر کے فون سے کر سکتی ہے مجبوری اتنی کے وہ یہ سب کسی سے شیئر بھی نہ کرسکتی بہن بھائی سالوں میں آجاتے تو اطہر ان کے ساتھ ہی چپکارہتا اب تو وہ بھی نہ اتے۔ بس زندگی گزر رہی تھی ایک قید تھی جو ختم نہ ہوتی تھی کوئی روزن نہ تھا نہ ہی کوئی کھڑکی کے ہوا آئے یا روشنی
اطہر روز بن ٹھن کر کام پر جاتا اسے تو لپ سٹک لگانے پر لتاڑ دیتا کہ کون انے والا ہے آج۔
وہ پھر دنوں میک آپ کے پاس نہ جاتی کیا شاری قائم رکھنے کے لئے یہ قید ضروری تھی؟
اگر ہاں تو وہ قید کاٹ رہی تھی اور نہ جانے کتنی ہی لڑکیاں یہ قید کاٹ رہی ہیں۔ کچھ کم کچھ زیادہ۔ ان کے رشتہ دار ناراض ہیں کہ وہ ان سے ملتی نہیں ہیں باتیں نہیں کرتیں مگر قبر کا حال مردہ ہی جانتا ہے
لڑکیوں کو سکھایا جاتا ہے کہ شادی کے بعد گھر آنگن عورت کے دم سے ہی چلتا ہے کچھ معاف کر دو، کچھ نظر انداز کر دوں، مگر گھر ٹوٹنے نا دو۔
مگر بعض اوقات کچھ عورت ساری زندگی ایک ایسی ہی قید مسلسل کو کاٹنے میں لگا دیتی ہے جن سے زندگی بہت کوئی کونپل نہیں پھوٹتی۔
سارے رشتے چھوٹ جاتے ہیں اور بس عمر ختم ہو جاتی ہیں
Tweeter ID Handel @SyedmusaddiqSy4

Leave a reply