ایک دن چند "اماموں” کی صحبت میسر تھی۔ گفتگو حسب معمول دیر سے شروع ہوئی اور حرم میں داخل ہوئی۔ ایک پاسبان حرم بولا "یار میں دو مسجدوں میں امامت کرتا ہوں۔ مگر بمشکل گزر اوقات ہو رہی ہے۔ آپ صرف ایک مسجد کے امام ہیں اور یہ گھر بار کیسے چلا لیتے ہوں گے۔” دوسرا مسکرایا۔ کہنے لگا، "یار واللہ اس میں واقع کچھ نہیں۔ مگر اللہ کا کرم ہے۔ برکت وہ ڈالتا ہے تو کچھ جگاڑ کرکے ہم گزر بسر کر لیتے ہیں۔”
مجھے جو نکتہ کھٹک رہا تھا، وہ یہ تھا کہ یہ پہلا امام بیک وقت دو مسجدوں میں امامت کے فرائض کیسے انجام دیتے ہوں گے؟ایسے میں ان کی اپنی نماز تو دوگنی ہو جاتی ہے؟
پوچھ ہی لیا۔
"یارا دوگنی تو نہیں ہوتی۔ البتہ کسی دن ایک زیادہ ہو جاتی ہے اور کسی دن دو۔ میں اس کا بہت اہتمام کرتا ہوں کہ اپنی نماز میں خلل نہ آئے۔” ایک توقف کے بعد فرمایا "در اصل ایک مسجد میں صرف تین نمازیں پڑھاتا ہوں۔ ظہر، عصر اور شام۔ باقی دو کے دوران وہ مارکیٹ بند رہتی ہے۔ ایک دو نمازیں اکثر ایک مقتدی پڑھا لیتا ہے۔ ایک اور کبھی کبھی دو کے لیے میں پہنچ جاتا ہوں۔ ٹائم کا مسئلہ نہیں ہوتا۔ جس مسجد میں پانچ وقتہ پڑھانی ہے، اس کی اور دو وقتہ کے درمیان پندرہ منٹ کا وقفہ ہوتا ہے۔ سو کوئی ہرج کی بات نہیں۔”
"لیکن یہ ایک یا دو نمازیں آپ کی زائد از ضرورت نہیں ہو رہیں؟”
"تمھیں کوئی اعتراض ہے؟”
"مولانا میری کیا مجال کہ اعتراض کروں۔ وہ پوچھنا یہ تھا کہ اوپر والے کو تو کوئی اعتراض نہیں نا؟”
پاس بیٹھے دوسرے امام کی طرف دیکھا اور اک ادائے بےنیازی سے یہ کہہ کر کہ "مولانا بہتر جانتے ہیں”، بال اٹھا کر اس کے کورٹ میں ڈال دی۔
دوسرے مولانا نے کار خدا میں مداخلت گوارا نہ کی اور موضوع بدلتے ہوئے کہا "یہ بتاؤ۔ تمھیں اس پانچ نماز والی مسجد میں ایک نماز کتنے میں پڑتی ہے؟” امام العصر و ظہر نے مبائل لیا۔ کلکلیٹر نکالا۔۔۔ بیس ہزار کو پانچ پر تقسیم کیا۔ اس کو مزید تیس دنوں میں بانٹ کر بتا دیا۔ کہ اتنے میں ایک نماز پڑتی ہے۔ پھر دوسرے والے نے بھی یہی کیا۔ پانچ وقتہ امام دوسرے والے سے بولا کہ تین وقت والی کتنے میں پڑھا رہے ہو؟ اس نے پندرہ ہزار کو تین اور اس کو پھر تیس دن پر تقسیم کرکے حساب پیش کیا۔
ہم تا دیر اس جملے کے سحر سے نہ نکل پائے کہ ” ایک نماز کتنے میں پڑتی ہے؟”
اس طرح کا ایک واقعہ ہے۔ مردان میں ایک مولانا سے ہماری یادٔ اللہ تھی۔ ایک دن بحث چل نکلی۔ ہم نے کہا کہ مولوی تنگ نظر ہیں۔ فرقہ واریت پھیلاتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ جب ہم لڑکھراتی اور بےربط زبان میں اپنا درشن دے چکے تو مولانا نے سکون سے اپنی وسیع القلبی کی داستان یوں سنائی۔
"دیکھو۔ مولوی سے بڑھ کر کوئی سیکولر نہیں ہو سکتا۔ بالخصوص جب وہ امام ہو۔۔۔آپ بڑے لبرل بننے کی کوشش کرتے ہو مگر ہم تک نہیں پہنچ سکتے۔”
میں پھٹی پھٹی آنکھیں لیے اس کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ نسوار کی تھیلی کھولی۔ کچھ دیر دور افق میں کچھ گھورتے رہے۔ نسوار لگائی۔ اور پھر سے گویا ہوئے۔
"میں لاہور میں ایک مسجد میں امام تھا۔ وہ دیوبندیوں کی مسجد تھی۔ کاپر پنجابیوں نے بڑی کم تنخواہ پر مجھے رکھا تھا۔ مگر ساتھ والی مسجد جو بریلویوں کی تھی، کسی امام کی تلاش میں تھی اور دوگنی تنخواہ دے رہی تھی۔ ایک دن میں نے دستار اٹھائی۔ اللہ کا نام لیا اور اس مسجد میں امام ہوگیا۔ تین سال تک عین بریلویوں کے طرز پر ازاں دیتا اور نماز پڑھاتا رہا۔۔۔
"غم روزگار مجھے پشاور لے آیا۔ یاں اہل حدیث کی مسجد میں امامت کرنی تھی۔ میں نے سابقہ دونوں طور طریقوں کو یکسر بھلا دیا۔ دو دن میں اہل حدیث والی نماز کا طریقہ کار سیکھا اور پانچ سال تک پڑھاتا رہا۔ اب مردان میں اپنے گاؤں کی مسجد میں امام ہوں۔ اگر مجھے کہیں پر اچھی تنخواہ آفر ہوگئ تو چپکے سے چلا جاؤں گا۔ مجھے کسی کے مسلک، فرقے سے کوئی واسطہ نہیں۔۔۔”
نسوار مسجد کے برآمدے سے دور پھینکی اور بولا "اب بتاؤ۔ کون زیادہ سیکولر ہے؟ ہم یا آپ؟”
میں نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ مولانا یاں بھی تو ہی بازی لے گیا۔
ٹوئیٹر : Jawad_Yusufzai@
ای میل : TheMJawadKhan@Gmail.com







