۔
حضرت قائد اعظمؒ نے ہمیں ایک قوم کی طرح ایک مقصد پر جمع کیا تھا۔نباض امت اقبال ؒ نے اس قوم کی فکری آبیاری کی تھی۔ مولانا محمود الحسنؒ اسیر مالٹا، مولانا عبیداللہ سندھیؒ، مولانا محمد علی ؒجوہر اور مولانا شوکت علی ؒجیسے رہنما ئے امت نے اس قوم کو عملی جدوجہد کا سبق سکھایا تھا۔لیکن ہم یہ سب کچھ بھول گئے۔علماءاور دینی جماعتوں نے اسلام کی تبلیغ کی بجائے ہمیں اسلام آباد کے راہوں کی ترغیب دی۔سیاستدانوں نے روٹی کپڑا اور مکان کا سراب دکھایا اور یہ قوم ان قسم کے مشرکانہ نعروں کو اپنا ہدف سمجھ کر ان کے پیچھے لگ گئی۔ رازق تو اللہ کی ذات ہے اور یہ وصف صرف اسے ہی سزا وار ہے ہاں اس کے لئے جدوجہد انسانوں کے لئے شرط ہے۔لیکن اگر ہم اپنے جیسے انسانوں کو ہی ان مسائل کا حل سمجھ لیں تو عذاب خداوندی کا سروں پر مسلط ہونا عبث نہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہم قوم سے عوام بن گئے، ایک دوسرے سے غافل، ہمارا سب سے بڑا مقصد کرکٹ ورلڈ کپ جیتنا رہ گیا ہے۔ہمارے حکمرانوں کو بھی رومی حکمرانوں کی طرح عوام کو بے وقوف بنانا آتا ہے،کیونکہ زمانے بدلنے سے تقاضے بدلتے ہیں روش یا تاریخ نہیں۔
قوم کو متحد اور منظم رکھنا ایک باکردار با عمل لیڈر رہنما کی اولیں ترجیح ہوتا ہے،جبکہ بد قسمتی سے ہمیں قائداعظم کے بعد نہ ہی تو کوئی سیاسی لیڈر رہنما ملا اور نہ ہی ہم عوام نے کبھی خود قوم بننے کی زحمت گوارہ کی ہے۔ہر کسی نے ان سیاسی مداریوں کو ہی بار بار منتخب کروایا اور اپنے چھوٹے چھوٹے ذاتی انفرادی مفادات کے حصول کیلئیے انکو ہی اپنا خیرخواہ سمجھا،جس کی بدولت ہم عوام کبھی لسانیت کے نام پر اور کبھی مذہب اور فرقہ واریت کے نام پر آپس میں الجھے رہتے ہیں،جس سے ہماری اخلاقیات تہذیب اور فلاحی سوچ رکھنے والوں کی نیک خواہشات کا جنازہ نکلنا شروع ہوتا گیا،اور پھر نتیجے میں میرا جسم میری مرضی،جیسی تنظیمیں ملک میں نمودار ہونے لگیں۔اور ہم قوم سے عوام رہنے کو ترجیح دیتے رہے،کبھی ملکی ترقی اجتماعی اور عوامی فلاح و بہبود جیسے منصوبوں تک ہماری سوچ نہیں پہنچ پائی،کیونکہ سیاستدانوں نے ہمیں انفرادی سوچ کی شخصیت کا حامل بنا کررکھ دیا ہے۔قومیں کبھی اپنے ملک کی املاک کی توڑپھوڑ، قومی خزانے کی چوری، کرپٹ عدلیہ،کرپٹ سیاسی مافیاز،راشی بیوروکریٹس اور صحافی پیدا نہیں ہونے دیتیں۔
جس معاشرے میں استاد کو حقارت اور ایک کرپٹ بیوروکریٹس کو عزت سے نوازہ جاتا ہو وہاں قومیں نہیں عوامی انتشار پسند ٹولے،فرقہ وارانہ اجتماعات،اور ظالم حکمران ہی پیدا ہوتے ہیں۔اسلامی اور خاندانی اقدار ہی ختم ہو چکی ہیں،جس معاشرے میں بھائی کے ہاتھوں بہن اور باپ کے ہاتھوں بیٹی تک کی عزت نیلام ہونے لگے پھر ایسا معاشرہ پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا خواہاں کیسے ہو سکتا ہے۔موجودہ پاکستان میں تقریبا %59 فیصد لوگ پڑھے لکھے اور باشعور ہونے کے باوجود سنگین جرائم میں ملوث پائے جاتے ہیں کیوں۔؟وجہ تعلیم کی کمی نہیں تربیت کا بحران ہے۔

آج 73 سال گذرنے کے باوجود بھی ہم عوام کا ہجوم ہیں قوم نہیں۔

Shares: