ہم ایک اسلامی معاشرے میں رہتے ہیں اور ہمارا مزہب ہمیں ایک دوسرے کو کارخیر کی دعوت دینے کی تلقین کرتا ہے اور برائی سے روکنے کا حکم دیتا ہے لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ ہم لوگوں کو تو  نیکی کی باتوں کی طرف بلاتے ہیں لیکن خود عمل نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں متنبہ کرنے کے لئے قرآن پاک میں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں:
اَتَاۡمُرُوۡنَ النَّاسَ بِالۡبِرِّ وَ تَنۡسَوۡنَ اَنۡفُسَکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ تَتۡلُوۡنَ الۡکِتٰبَ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ ﴿۴۴﴾
کیا لوگوں کو بھلائیوں کا حکم کرتے ہو؟ اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو باوجودیکہ تم کتاب پڑھتے ہو ،  کیا اتنی بھی تم میں سمجھ نہیں؟ ۔

(سورہ البقرہ: آیت نمبر :44 )
ایک اور مقام پر اللہ تعالی ایمان والوں کو مخاطب کر کے کہتے ہیں:
یٰۤاَیُّہَا  الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا  لِمَ  تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا  تَفۡعَلُوۡنَ
اے ایمان والو!  تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ۔
 
( سورہ الصف: آیت نمبر: 2)
کَبُرَ  مَقۡتًا عِنۡدَ  اللّٰہِ  اَنۡ  تَقُوۡلُوۡا مَا  لَا تَفۡعَلُوۡنَ
تم جو کرتے نہیں اس کا کہنا اللہ تعالٰی کو سخت ناپسند ہے ۔
( سورہ الصف:آیت نمبر:3 )
 
اللہ تعالی اس بات کو سخت ناپسند کرتا ہے کہ انسان جن باتوں سے دوسروں کو تو روکتا ہے لیکن اسپر خود عمل پیرا نہی ہوتا ۔
ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ ہم قول و فعل میں تضاد کا شکار ہیں اور اسی منافقت اور تضاد کی وجہ سے ہم ناقابل اعتبار ہوتے جا رہے ہیں۔ہماری باتیں ہمارے عمل سے بہت مختلف دیکھائی دیتی ہیں اور یہ ہی وجہ ہے کہ ہماری کہی  ہوئی باتوں کا اثر بھی کم ہوتاجا رہا ہے۔
آج کے اس جدید دور میں جب دنیا سمٹ کر انسان کے ہاتھ میں پکڑے موبائل میں سما چکی ہے ہم بہت سی اچھی باتیں لوگوں کو سوشل میڈیا کے توسط سے پہنچا سکتے ہیں لیکن یہاں بھی دیکھا گیا ہے کہ لوگ سوشل میڈیا پر انتہائی نصیحت آموز باتیں شئیر کرتے ہیں لیکن جب کبھی عملی زندگی میں ان سے واسطہ پڑتا ہے تو ان نصیحت آموز باتوں کا اثر ان کی اپنی زات پر کہیں دور دور تک بھی دیکھائی نہیں دیتا۔ اسکی ایک مثال جو میری زندگی میں گزری آپکے سامنے پیش کرتا ہوں ۔
ایک جاننے والےشخص تھے وہ  بہت زیادہ ایمانداری ، سفارش کے خلاف  اور لوگوں کے حق نہ مارنے کی باتیں کرتے تھے اور جب کبھی ہم اکٹھے بیٹھتے تھے وہ ہمیں اسی طرح ہی نیکی کی باتوں کا درس دیتے تھے۔ ایک مرتبہ ان کے بیٹے نے کسی جاب کے لئے  اپلائی کیا وہاں ان کے بیٹے کامیرٹ نہیں بنتا تھا لیکن انھوں نے سفارش اور تعلقات کو استعمال کر کے اپنے بیٹے کو جاب دلوا دی۔اور اپنی نصیحت آموز باتوں پر خود عمل کرنا گوارا نہ سمجھا۔

ایسے لوگوں کے بارے میں حدیث میں بھی بہت سخت الفاظ آئے ہیں
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
ایک شخص کو  ( قیامت کے دن )  لایا جائے گا اور اسے آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ پھر وہ اس میں اس طرح چکی پیسے گا جیسے گدھا پیستا ہے۔ پھر دوزخ کے لوگ اس کے چاروں طرف جمع ہو جائیں گے اور کہیں گے، اے فلاں! کیا تم نیکیوں کا حکم کرتے اور برائیوں سے روکا نہیں کرتے تھے؟ وہ شخص کہے گا کہ میں اچھی بات کے لیے کہتا تو ضرور تھا لیکن خود نہیں کرتا تھا اور بری بات سے روکتا بھی تھا لیکن خود کرتا تھا۔
ہمارے معاشرے میں ایسی متعد مثالیں موجود ہیں جہاں قول و فعل میں تضاد پایا جاتا ہے اکثر لوگ کہتے ہیں کہ بیٹی تو اللّہ کی رحمت ہوتی ہے اور وہ خوش نصیب انسان ہوگا جس کو اللّہ تعالیٰ رحمت سے نوازے گا لیکن ایسی باتیں کرنے والے لوگ دو ،تین بیٹیوں کی پیدائش پر ہی پریشان ہو جاتے ہیں اور گھٹن محسوس کرتے ہیں
اور اس کا زمہ دار صرف بیوی کو سمجھتے ہیں۔
ہم بیٹھ کر باتیں تو بے تحاشا کر سکتے ہیں لیکن ہمارے اندر عمل ناپید ہوتا ہے۔
اس مسئلے کے حل سے پہلے ہمیں ان اسباب کو جاننا چاہئے جو اس سب کی وجہ بن رہے ہیں
ایمان کی کمزوری اس مسئلے کی سب سے بڑی وجہ ہے جب دل میں ایمان کمزور ہوگا یوم آخرت پر یقین نہیں ہوگا تو ہم اچھے اعمال کرنے کی کوشش نہیں کریں گے اگر ہمارا ایمان مضبوط ہوگا تو یہ ہمیں عمل صالح کرنے کی ہمت دے گا اور اللّہ کی رضا اور خوشنودی کے لئے کوشش کرنے کی توفیق دے گا
دوسری بڑی وجہ نفس کی غلامی ہے اگر ہم ایمان میں مضبوط ہوں گے تو نفسانی خوا ہشات پر غلبہ حاصل کر سکیں گے لیکن اگر نفس غالب ہوگا تو ہمارے قول فعل میں تضاد لازمی پایا جائے گا۔
کسی بھی عمل کی صحیح ہونے کے لئے اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ہمارے دل،عقل اور نفس کی اصلاح ہو۔اگر یہ تینوں ٹھیک ہو جائیں تو ہمارا ہر عمل ہماری باتوں کے مطابق ہو گا اور ہمیں اللّہ سے قریب رکھے گا
اللّہ پاک ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

‏@iEngrDani

Shares: