قارئین گرامی ڈاکٹر عبدلقدیر خان صاحب کی رحلت کا علم ہوا تو سارا دن موبائل فون پر، سوشل میڈیا پر جہاں ایپ کھولتا یہ ہی خبر دیکھنے کو ملی لیکن پتہ نہیں کیوں دل مضطرب نہیں تھا آنکھوں میں آنسو نہیں اُتر سکے وہ غم و دکھ نہیں تھا جو کسی محسن کے جانے کا ہوتا ہے اور وہ شخص تو محسنِ پاکستان نہیں بلکہ محسنِ اسلام و مسلم اُمہ تھا اپنے اس عمل پر پیشمان بھی تھا اور نادم بھی مگر اس ندامت کے باوجود میرے پاس رونے کی کوئی وجہ نہیں تھی 

کیونکہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کوئی سلیبرٹی نہیں تھے اپنی ہوری جوانی کے دوران کبھی کبھار ہی انکا چہرہ ٹی وی پر دیکھنے کو ملا اور ملا بھی تو ایک مبہم سے تاریخی کردار کے طورپر جیسے کوئی غدار کہتا تو کوئی محسن پھرجب خود سے سوال کرتا کہ اگر وہ محسن پاکستان ہیں تو نظر بند کیوں ؟

محسنوں کو تو پلکوں پر بٹھایا جاتا ہے 

اس کی ہر راحت ہر خوشامد بجا لائی جاتی ہے اس کے چرچے کرتی دُنیا نہیں تھکتی 

خیر قصہ مختصر کہ اسی کشمکش میں ان سے الفت نہ ہوپائی ۔

مجھے ڈرامے کے ایک کردار "دانش” سے کافی اُلفت تھی بلکہ پورے پاکستان کو تھی اس کی ڈرامے کی غیر حقیقی موت پر بھی میرے سمیت ہر پاکستانی صدمے میں تھا اور ہر کسی کا دھاڑیں مار مار رونے کو دل کرتا تھا اور سوشل میڈیا پر ہم نے دیکھا سینکڑوں کی تعداد میں ویڈیوز آئیں جب دانش مررہا تھا اور ہفتہ بھر قوم سوگ میں رہی تھی

مگر  ڈاکٹر عبدلاقدیر خان صاحب کی دفعہ میرے سمیت قوم کے جذبات ویسے نہ تھے ہر کوئی میری طرح اناللہ واناالیہ راجعون لکھ کر تعزیت تو کررہا تھا مگر دل پہ وہ چوٹ نہیں تھی وہ دکھ نہ تھا وہ درد نہ تھا وہ تڑپ نہ تھی جو دانش کے مرنے پر تھی 

دانش تو ہم سب کا پیارا تھا اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لئیے ڈرامے کورپیٹ کرتا اور ایک ہی قسط کو دو سے تین بار دیکھتا تھا

مگر ڈاکٹر عبدلقدیر خان سے محبت الفت کیا ان سے ملاقات کی خواہش کبھی دل میں نہ آئی میں جیسے سلیبرٹیزکے ساتھ تصویریں کھنچوانے کے لئیے بے تاب رہتا تھا اور اپنے پسنددیدہ فنکاروں کے ساتھ باتیں کرنے ملنے کی جو چاہت میرے دل  تھی ڈاکٹر عبدالقدیر کے لئیے کبھی نہ ہوئی اور شاید آدھے سے زیادہ پاکستانیوں کا بھی یہی حال ہے 

چنانچہ یہ سب سوچ کر میں نے اپنے اندر اُٹھنے والی ندامت کو کامیابی سے دبا دیا اور سوشل میڈیا کو چلانے لگا اچانک ایک مولانا کی ویڈیو سامنے آئی تو ان کو بھی دوسرے تجزیہ کاروں کی طرح سُن ہی لیا مولانا نے اس وڈیو میں اپنی ڈاکٹر قدیر خان سے ملاقات کا احوال بتایا کہ جب ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ چوُم لئیے جس پر ڈاکٹر صاحب بھی حیران ہوئے اور پوچھا کہ مولانا صاحب سفید داڑھی کے ساتھ ایسا کیوں ؟

مولانا نے جواب میں بڑی کمال کی بات کی اور حدیث نبوی ﷺ  کا حوالہ دیتے ہوئے کہا جو تیر بنائے جو تیر پہنچائے اور جو تیر چلائے دونوں کے لئیے جنت کی بشارت ہے لہذا مولانا صاحب نے فرمایا کہ او شیرا تو تا (تم نے) تو ایٹم بم بنایا ہے 

مولانا کی اس بات نے عبدالقدیر صاحب کے ساتھ ساتھ مجھے بھی ایک عجیب حیرت میں ڈال دیا کہ آج کے مولانا جن کی خدمتیں کرتی عوام نہیں تھکتی اور مذہبی خدمات کی وجہ سے جنکا الگ ہی پروٹوکول ہوتا جن کے ہاتھ چومتے لوگوں کے ماتھے تھکتے نہیں انہوں نے ماتھا جھکا کر ڈاکٹر عبدلقدیر صاحب کے ہاتھ کو چوُما ڈاکٹر صاحب کا یہ پروٹوکول مجھے ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا سا لگا 

چنانچہ دونوں باریش بھی نہ تھے تو کافی مماثلت بھی پیدا ہوگئی

خیر رات ہوئی دن بھر کا تھکا ہارا پہلی فرصت بستر پر گرا اور رات کے پہلے حصے میں ہی نیند کی آغوش میں جاگرا 

صبح صادق اُٹھا یہ صبح بھی دوسرے دنوں کی طرح نہایت پُرسکون تھی مگر موسم کی وجہ سے خنکی تھوڑی زیادہ تھی خیر نماز سے فارغ ہوکر قرآن پاک کی تلاوت کے لئیے قرآن پاک کو چُوم کر کھولا چُومنے سے ایک بار پھر مجھے مولانا کا ڈاکٹر عبدلقدیر کا ہاتھ چُُومنے والی بات یاد آگئی کہ عبدلقدیر صاحب نے ایٹم بم بنایا ہے اس لئیے ہاتھ چُومے تیروں والی حدیث بھی ذہن میں آگئی دماغ میں چلنے والی اس غیر ارادی افکار کی گھتیاں سلجھارہا تھا کہ تیر بنانے والا جنت میں کیوں جائیگا ؟

ذرا غور کیا تو یہ ہی نتیجہ نکال پایا کہ تیر اندازوں کو تیرایجاد کرنے اور چلانے پر جنتی اعزاز سے نوازا گیا تھا بلکہ انکی خلاصی اور بخشش کی وجہ ان کے عالمِ اسلام کی سربلندی کے چلنے اور اُٹھنے والے ہاتھ تھے جب ڈاکٹر عبدلقدیر کے کام کو اس کسوٹی پر رکھا تو مولانا صاحب کے جملے پر دم بخود سا رہ گیا 

"اوشیرا! تو تا ایٹم بم بنایا” یعنی کہ دورحاضر میں عالمِ اسلام کی اس خستہ حالی میں اسلام کو ایٹمی طاقت بناکر اسلام کا پرچم تا قیامت سر بلند کردیا 

بس اسی سوچ کا دماغ میں آنا تھا کہ دماغ میں الجھی ساری گتھیاں سلجھ گئیں اپنے اندر کی ندامت جسے میں زبردستی بڑے زعم سے اپنے اندر چھپائے بیٹھا تھا آنسو بن کر رخساروں پر بہنے لگے اب مجھے اس ولی اللہ کے بچھڑنے کا غم منانے کی وجہ تھی 

کہ آج ہم جس ملک پاکستان میں مذہبی آزادی کے ساتھ عبادات کرتے ہیں عیدیں مناتے ہیں ہماری داڑھیاں محفوظ ہیں اور آزادی کے ساتھ عید قرباں پر جانور اللہ کی راہ میں قرباں کرتے ہیں کیونکہ ہم دشمن کو اسی ایٹمی طاقت کی وجہ سے روکے ہوئے ہیں 

لیکن پھر بھی اس ندامت اور نااہلی کو سہارا دینے کی کوشش کی لیکن ہائے افسوس!میری اس کوشش کے دوران بھی "آنسو ” آنکھوں کا دامن چھوڑ چکے تھے 

جیسا کہ تحریر میں پہلے ذکر کرچکا کہ یہ سارا معاملہ تلاوت کلام پاک کے دوران پیش آیا میرے آنسو حلقہِ رخسار کو چھوڑ کر کلام الہی کے پاک صفحوں پر گرنے ہی والے تھے کہ خود کو سنبھالا دیا اور اپنے ان مجرمانہ آنسوؤں کو مجرمانہ دامن میں سمیٹ لئیے 

سچ تو یہ ہے کہ مجھ سے یہ برداشت نہ ہوا کہ میرے یہ گناہ گار آنسو کلام پاک کو چھونے کی جسارت کریں 

آخر پر اتنا ہی کہوں گا کہ قوم اس پیارے ملک پاکستان کو بنانے والے بابائے قوم قائداعظم اور اس ملک پاکستان کو ناقابلِ تسخیر بنانے والے ڈاکٹر عبدلقدیر کی احسان مند رہے گی 

@Naseem_Khemy

Shares: