کہنے کو توپرچم کپڑے کا ایک ٹکڑاہے جب یہ کپڑا کسی خاص تناسب اور مخصوص رنگوں کے باعث پرچم کی شکل اختیار کرلیتا ہے تویہ محض کپڑے کا ایک ٹکڑا نہیں رہتا بلکہ یہ اس ملک کی عزت اوروقار کی علامت بن جاتا ہے قومی پرچم کسی بھی ملک کی پہچان اور شناخت ہوتا ہے.ہمارا پرچم ہماری آزادی اور خود مختاری کا نشان ہے . ہمارا پرچم دو رنگوں پر مشتمل ہے۔ سبزاورسفیدرنگ۔ سفید رنگ ایک چوتھاٸی اور سبز رنگ تین چوتھاٸی ہوتا ہے۔ سبز رنگ مسلمانوں کی اور سفید رنگ اقلیتوں کی نماٸندگی کرتا ہے۔ یوم آزادی کے دن کو بہت جوش وخروش سے منایا جاتا ہے۔اس دن ہر عمارت ،دوکان، اور سواری پر لوگ جھنڈا لگاتے ہیں ۔لیکن ضرورت اس چیزکی ہے کہ نوجوان نسل اس پرچم کی اہمیت اور احترام کے تقاضوں سے آگاہ ہوں۔سربلند پرچم قوم کی ترقی ،عظمت اور بہادری کی علامت ہوتا ہے۔ ہم قومی ترانے میں پڑھتےہیں۔
پرچمِ ستارہ ہو ہلال
رہبر ترقی وکمال
اسکا مطلب ہےکہ پرچم پر بنا ہوا ہلال ہماری ترقی کا راہبر ہے۔ہلال پہلی رات کے چاندکو کہتے ہیں۔جس طرح ہلال بڑھتے بڑھتے پوراچاند بن جاتا ہے،اسطرح اللہ کے فضل و کرم سے ہمارا وطن بھی ترقی کے راستے پرگامزن رہےگا۔اس پر پانچ کونوں والا ستارہ بناہواہے۔پانچ کونوں سے مراد اسلام کے پانچ ستون ہیں۔ہم وطن سے محبت کا اظہار تو کرتے ہیں لیکن یہ شاید ہی جانتے ہوں کہ قومی پرچم کا ڈیزاٸن کس شخصیت نے تیار کیا تھا۔جناب امیرالدین قدواٸی نے ہمارے پیارے پرچم کا ڈیزاٸن تیارکیا تھا۔ اسلام میں پرچم کا آغاز ہجرت کے ساتھ ہی ہوا تھا۔ مکہ سے ہجرت فرماکے جب اپﷺ مدینہ منورہ کی طرف جارہے تھے تو خضرت بریدہ (رضی اللہ تعالی) نے اے اللہ کے نبی ﷺ مدینے میں داخل ہوتے ہوۓ اپکے پاس جھنڈا ہونا چاہۓ تب اپﷺنے اپنا عمامہ اتار کر نیزے پر باندھ کر خضرت بریدہ کو دیا۔امن اور سلامتی کی پہچان یہ جھنڈا اسلام کا پہلا جھنڈا تھا۔قومی پرچم کی منظوری پہلی دستور ساز اسمبلی میں ١١ اگست ١٩٤٧ کو دی گٸ۔لیاقت علی خان نے دستور ساز اسمبلی میں پہلی بار قومی پرچم لہرایا۔
١٤ اگست قریب اتے ہی جھنڈوں اور جھنڈیوں کی بہاریں آجاتی ہیں ۔خواتین ،بچے ،بڑے ،بوڑھے سب جھنڈے ، بیچز اور جھنڈیوں کی خرایداری میں لگ جاتے ہیں۔١٤اگست سے ایک یا دو دن پہلے گلی محلے ،دفاتر ،تعلیمی ادارے،اور گاڑیاں سجانے کا رواج برسوں سے چلا آرہا ہے ۔١٤اگست سے پہلے تقریبا جھنڈے،جھنڈیوں اور سبزاور سفید لاٸٹوں سے سجا دیا جاتا ہے۔یہ نظارہ ناصرف انتہاٸی خوبصورت لگتا ہے بلکہ قوم کی اپنے وطن سے سچی محبت کوبھی ظاہر کرتا ہے۔لیکن پتہ نہیں ١٤ اگست کے اگلے دن ہی یہ جذبہ کہاں غاٸب ہو جاتا ہے۔یہ سوال توسبکوحیران کردینے والا ہے۔جو جھنڈیاں اور جھنڈے ہم ١٤ اگست کو اپنے گلی محلے کو سجانے کیلے لگاتے ہیں ۔توپھر انکے احترام و تقدس کا خیال کیوں نہیں رکھتے۔آخر کیوں دوسرے ہی دن وہی جھنڈیاں ہمارے پیروں تلے روند دی جاتی ہیں یا زمین پر دھول میں پڑی ہوتیں ہیں ۔آخر کیوں جو جھنڈیاں یاپرچم ہمارے گھروں میں احترام سے سجاۓ جاتے ہیں ۔وہ بعد میں کٸی حصوں میں تقسیم ہوکر پھٹ جاتے ہیں اورپھر کوڑے دان میں پھینک دے جاتے ہیں ۔کیا اپ اسکی وجہ جانتے ہیں،اسکی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے پرچم کی اہمیت اور احترام سے واقف نہیں۔بہت سے ایسے لوگ ہوں گے جویہ نہیں جانتے کہ پاکستان کے آٸین کے مطابق کوٸی بھی شہری سواٸےصدروزیراعظم،آرمی چیف سمیت کسی اعلی عہدے پرفاٸز شخص بھی پرچم کو اپنے گھریا دفتر پر نہیں لہرا سکتا، صرف ١٤ اگست کے دو دن تک قومی پرچم اپنے گھر یا دیگرمقامات پرلہرانے کی اجازت ہوتی ہے۔اسکے بعد پرچم کو فوری اتار دینے کی ہدایت آٸین میں موجود ہے۔آٸین میں موجود اس شق کا مقصد قومی پرچم کی اہمیت کا پامال ہونے سے بچانا ہےتاکہ پرچم کی بے حرمتی نہ ہو جو کہ اب عام ہو چکی ہے۔چودہ اگست کے دن جھنڈیاں خریدی اور لگائی جاتی ہیں لیکن ان جھنڈیوں کی حفاظت نہیں کی جاتی وہ گلیوں آور بازاروں میں جگہ جگہ گیری پڑی نظر آتی ہیں میری سب سے گزارش ہے کہ جھنڈیاں لگائیں تو انکی حفاظت بھی کریں چودہ اگست گزرنے کے بعد ان جھنڈیوں کو اتار کر رکھ لیں سنبھال کر جہاں جہاں آپ کو جھنڈی گیری ہوئی نظر آئے فورا اٹھائیں اور اگر آپ ان چیزوں کی حفاظت نہیں کرسکتے تو جھنڈیاں نہ لگائیں کیونکہ جھنڈے کی بے حرمتی ہوتی ہے۔کیونکہ پرچم کا اخترام ہم سب پر فرض ہےکیونکہ پرچم کسی بھی قوم کی پہچان اور فخر ہوتاہے۔اسے پیروں تلے روند کر اسکی بے حرمتی نہ کریں اور نہ ہی اپنے تفخر کو خود مسخ کریں
@Samra_Mustafa_