قائد حزب اختلاف کی پریس کانفرنس،سندھ حکومت کا پول کھول دیا
تین ماہ گزر جانے کے باوجود حکومت سندھ نے اب تک بجٹ کی کوارٹر رپورٹ پیش نہیں کی۔قائد حزب اختلاف فردوس شمیم نقوی نے کہا کہ اس حکومت کو 13سال ہو چکے ہیں اسکے باوجود یہ اپنا سسٹم ٹھیک نہیں کر سکے۔ سندھ حکومت کی جانب سے گزشتہ سال ٹیکس کلکشن میں بڑی ناکامی دیکھنے کو ملی۔ بلال غفار نے کہا کہ سندھ حکومت نے شاہی خرچوں کی داستان رقم کی ہے۔
تفصیلات کے مطابق سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف فردوس شمیم نقوی نے سندھ اسمبلی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ تین ماہ گزر جانے کے باوجود حکومت سندھ نے اب تک بجٹ کی کوارٹر رپورٹ پیش نہیں کی۔ کس منصوبے پر کتنا پیسہ خرچ ہوا اسکے بارے میں سندھ حکومت نے اب تک کوئی معلومات فراہم نہیں کی۔
پہلا کوارٹر ستمبر میں پورا ہوا تھا لیکن اب نومبر کا مہینے آ چکا ہے، لیکن اب تک پہلے کوارٹر کی رپورٹ نہیں آئی۔ اس موقع پر ان ہمراہاراکین سندھ اسمبلی شہزاد قریشی، ارسلان تاج، سدرہ عمران،بلال غفاراور دیگر موجود تھے۔ فردوس شمیم نقوی نے مزید کہا کہ ہمیں جاننا ہے کہ سندھ حکومت نے بجٹ میں جووعدے کیے تھے، اور جو منصوبوں کے لئے رقم مختص کی تھی اس کا کتنا حصہ اب کے لگایا جا چکا ہے۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ پچھلے سال سندھ حکومت نے بجٹ کی ایک بھی کوارٹر رپورٹ اسمبلی میں پیش نہیں کی۔ سندھ حکومت نے پہلے پبلک اکاونٹس کمیٹی دینے سے انکار کیا اور اسکے بعد یہ بجٹ پروگریس رپورٹ بھی پیش نہیں کر رہے۔اس حکومت کو 13سال ہو چکے ہیں اسکے باوجود یہ اپنا سسٹم ٹھیک نہیں کر سکے۔ پبلک اکاونٹس کمیٹی کے معاملے سے ظاہر ہو گیا ہے کہ جو جمہوریت کے دعویدار ہیں وہ جمہوریت پر کتنا یقین رکھتے ہیں۔ پیپلز پارٹی قومی اور پنجاب اسمبلی میں پبلک اکاونٹس کمیٹی مانگتی ہے لیکن سندھ اسمبلی میں خود نہیں دیتی۔
انہوں نے مزید کہا کہ کورونا کے مسئلے پر جس طرح حکومت پاکستان پورے ملک کو لے کر چلی ہے وہ قابل تعریف ہے۔ ہماری حکومت کی آج ساری دنیا تعریف کررہی ہے۔ ہمیں اس بات کا ادراک ہے کہ عوام مہنگائی سے پریشان ہیں لیکن اس وقت معیشت کی بہتری کے مثبت نتائج آرہے ہیں۔ڈالر کی قیمت نیچے جارہی ہے اور ایکسپورٹس میں اضافہ ہورہا ہے۔ ہمارا صنعتی سیکٹر کامیابی کی طرف جارہا ہے۔آٹے اور چینی کے وافر مقدار میں ذخائر موجود ہیں لیکن قیمتیں کنٹرول کرنا صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے۔
فردوس شمیم نقوی نے مزید کہا کہ پانچ ستمبر کو کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کے 1100ارب روپے کا ایک مشترکہ اعلان ہوا۔ وفاق کے ذمہ جو کام ہیں اس کی رپورٹ وفاقی وزیر اسد عمر صاحب دیتے رہے ہیں۔ منصوبے میں کے فور کی ذمہ داری واپڈا، سرکلر ریلوے کی وزارت ریلوے، کچرا اٹھانے کی این ڈی ایم اے اور نالوں اور اوور ہیڈ برج کی ذمہ داری سندھ حکومت کو دی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئی جی پولیس کیسے اغوا ہوتے ہیں اس کے بارے میں رپورٹ میں کوئی ذکر نہیں۔آئی جی کے گھر کے باہر وڈیو کیمرہ موجود ہیں، زرا وہ وڈیو دکھائی جائے کہ انہیں کس نے اغوا کیا۔ اگر آئی جی خود اپنی گاڑی میں بیٹھ کر گئے تو اسے اغوا کرنا نہیں کہتے۔اس پورے معاملے میں قائد اعظم کے مزار کی بے حرمتی کو پس پشت ڈال کرآئی جی سندھ کے معاملے کو اٹھایا گیا۔ یہ سندھ حکومت خود آئی جی کو ہٹانے والی ہے کیونکہ انہوں نے ان لوگوں پر ہاتھ ڈالا ہے جو زرداری کے خاص ہیں۔جو افسران چھٹی پر گئے تھے ان افسران کی انکوائری رپورٹ سندھ حکومت نے ایک ہفتے میں دینی تھی لیکن سندھ کے وزراء اتنے ذمہ دار ہیں کہ وہ گلگت میں انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔
اس موقع پر رکن سندھ اسمبلی بلال غفار کا کہنا تھا کہ مراد علی شاہ 13سال سے صوبے کے وزیر خزانہ بھی ہیں۔ اسمبلی کے فلور پر سندھ حکومت کے وزراء بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں لیکن کارکردگی کہیں نظر نہیں آرہی۔سندھ حکومت کی جانب سے گزشتہ سال ٹیکس کلکشن میں بڑی ناکامی دیکھنے کو ملی۔ سندھ حکومت کے شاہی خرچوں کی داستان رقم کی ہے۔ انہوں نے حکومت کو چلانے کے لئے ملنے والے بجٹ میں سے 97فیصد استعمال کیا لیکن جب حکومت چلانے کے لئے خرچوں کی بات آتی ہے تو وہ انہوں نے صرف 36فیصد خرچ کئے ہیں۔ کراچی کے میگا پراجیکٹس کے لئے صرف58فیصد رقم خرچ کی گئی۔ صوبے کے مالی معاملات میں بے ضابطگیاں سندھ حکومت کی بدنیتی کو ظاہر کرتی ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ پی ایف سی کو فوری طور پر اعلان کیا جائے تاکہ بجٹ یوسی کی سطح تک پہنچ سکے۔