قدرتی آفات اور پاکستان تحریر : حنا
آپ سب جانتے ہیں ملک کے مختلف حصوں میں بارشوں کا سلسلہ کئ روز سے جاری ہے ۔۔جس سے بلوچستان کراچی اسلام آباد کے کچھ علاقے شدید متاثر ہورہے ہیں.قدرتی آفات خاص کر بارشوں سے تباہی صرف پاکستان میں نہیں بلکہ دنیا کے ہر ملک میں جب بارشوں کا موسم ہوتا ہے تو شدید بارشوں کی وجہ سے نقصانات بھی ہوتے ہیں ۔پھر وہ ملک امریکہ جیسی سپرپاور ہو یا دنیا کا سب سے ترقی یافتہ جاپان.طوفانی بارشوں کی وجہ سے جتنا نقصان تقریبا ہر سال جاپان میں ہوتا شاید ہی کسی اور ملک ہو ۔۔اور پاکستان سمیت دنیا بھر کی نظر میں جاپان دنیا کا ترقی یافتہ ملک ہے ۔۔کہنے کا مقصد ہے کہ قدرتی آفات سے اتنا ترقی یافتہ ملک بھی نہی بچ پاتا ۔۔وہ بھی اپنے مرتے لوگوں کو بہتے پانی سے زندہ نکال نہیں سکتا ۔۔کیونکہ موت کے آگے اس کی ترقی اس کی ٹیکنالوجی بھی نہیں چلتی ۔۔لیکن ہمارے پاکستان میں یہ معمول بن چکا ہے۔۔حکومت آج کی ہو یا پچھلی ۔۔ہم قدرتی آفات پر بھی انسانوں کو زمہ دار ٹھہرانے لگ جاتے ہیں ۔کہ فلاں کی وجہ سے عذاب ہے فلاں برا تھا اس وجہ سے عذاب آگیا ۔ ہمیں اپنے سماجی رویوں میں بھی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے کہ ہم قدرتی آفات کے متاثرین کو ان کے گناہوں کے نتیجے میں عذاب قرار دینے کی بجائے عملی امداد کی فراہمی یقینی بنائیں، میری نظر میں یہ درحقیقت قدرت کی طرف سے آزمائش ہوتی ہے کہ مصیبت کی اس گھڑی کاہم خود کیسے سامنا کرتے ہیں اور انسانی ہمدردیوں کی بنیاد پردوسرے متاثرین کی کیسے مدد کرتے ہیں، انسان زمانہ قدیم سے قدرتی آفات کا سامنا کرتا آرہا ہے انسان تمام تر ترقی کے باوجود قدرتی آفات کے آگے بے بس ہے ۔۔پاکستان عوام قیام ِ پاکستان کے بعد سے ہی آفات کا حادثات کا شکار ہوتا آرہا ہے 2010ء کا سیلاب اپنی نوعیت کا خطرناک ترین تھا جس کے نقصانات کا تخمینہ ایک محتاط اندازے کے مطابق 43ارب ڈالرز کا لگایا گیا تھا ایسے ہی قدرتی آفات سے متاثر ہونے والے ممالک میں پاکستان سمیت بھارت، بنگلہ دیش، چین، انڈونیشیا، جاپان، فلپائن، میکسیکو، سوڈان، افغانستان اور امریکہ وغیرہ شامل ہیں،لیکن ہم بطور پاکستانی یا ہماری حکومت ان آفات سے بچنے کی کوشش تو کر سکتے ہیں نہ ۔ہمیں اس حوالے سے حقیقت پسندانہ رویے کا مظاہرہ کرنا چاہئے کہ انسان قدرت کے کاموں میں مداخلت کے قابل تو نہیں لیکن قدرتی آفات کے نتیجے میں نقصانات کی شدت کم ضرور کرسکتا ہے۔قدرتی آفات کے نتیجے میں تباہ کاری کے بعد چندے اور امداد کی اپیل کی بجائے ہمیں پانی کے عظیم ذخیرے کو محفوظ کرکے قومی ترقی کیلئے استعمال کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ ہمیں ان قدرتی آفات میں پوشیدہ قدرت کے اس پیغام کو سمجھنا چاہئے کہ زلزلے اور سیلاب سے مکمل چھٹکارہ حاصل کرنا کسی ملک کے بس کی بات نہیں لیکن انسانی تاریخ میں سرخرو وہی ممالک قرار پاتے ہیں
دوسری اہم بات ایک دوسرے کو پارسا ثابت کرنے کے لیے قدرتی آفات پر ایک دوسرے کو گنہگار کے طعنے دینے سے بہتر ہے کہ ہم قرآن پاک کھول کر پڑھیں کہ قدرتی آفات آزمائش ہے۔آزمائش اور سزا میں فرق ہوتا ہے اللہ اپنے بندوں کو آزمائش میں اس لیے ڈالتا ہے تاکہ وہ بندوں کی برداشت کی انتہا دیکھیں اور بندوں کی اپنے رب سے محبت کو دیکھیں ۔سورہ بقرہ کی آیت 155، 156 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ”اور البتہ یقینا ہم تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف ، کچھ بھوک ، کچھ مالی وجانی اور پھلوں کے نقصان کے ذریعے اور بشارت دو صبر کرنے والوں کو ، کہ جب ان کو مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور ہم نے اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے
تو ثابت ہوا ۔آزمائش میں صبر کرنے والے ہی جیت جاتے ہیں ۔صبر کرنے والے ہی صبر کا صلہ پاتے ہیں اور صبر کرنے والے بڑی سے بڑی مشکل کو بھی ہنس کر برداشت کر لیتے ہیں ۔۔برداشت کرنا سیکھیے ۔۔کیونکہ رب اپنے بندوں کو اس کی طاقت سے زیادہ دکھ نہیں دیتا..