رام پرساد بسمل ہندوستان کے ایک انقلابی شاعر

0
67

آخری شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ
صبح دم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا

رام پرساد بسمل ہندوستان کے مجاہد آزادی اورانقلابی 11 جون 1897ء کو اتر پردیش کےگاؤں شاہ جہان پور میں پیدا ہوئے رام پرساد بسمل ہندوستان کے ایک انقلابی اور معروف مجاہد آزادی تھے نیز وہ معروف شاعر، مترجم، ماہر السنہ، مورخ اور ادیب بھی تھے ہندوستان کی آزادی کے لیے ان کی کوششوں کو دیکھ کر انگریزوں نے انہیں خطرہ جانتے ہوئے پھانسی کی سزا دے دی تھی۔

وہ کانگریس کے رکن تھے اور ان کی رکنیت کے حوالے سے کانگریسی رہنما اکثر بحث کرتے تھے، جس کی وجہ بسمل کا آزادی کے حوالے سے انقلابی رویہ تھا، بسمل کاکوری ٹرین ڈکیتی میں شامل رہے تھے، جس میں ایک مسافر ہلاک ہو گيا تھا۔

بسمل ان کا اردو تخلص تھا جس کا مطلب مجروح (روحانی طور پر ) ہے۔ بسمل کے علاوہ وہ رام اور نا معلوم کے نام سے بھی مضمون لکھتے تھے اور شاعری کرتے تھے۔ انہوں نے سن 1916ء میں 19 سال کی عمر میں انقلابی راستے میں قدم رکھا اور 30 سال کی عمر میں پھانسی چڑھ گئے۔

11 سال کی انقلابی زندگی میں انہوں نے کئی کتابیں لکھیں اور خود ہی انہیں شائع کیا۔ ان کتابوں کو فروخت کرکے جو پیسہ ملا اس سے وہ ہتھیار خریدا کرتے اور یہ ہتھیار وہ انگریزوں کے خلاف استعمال کیا کرتے۔ انہوں نے کئی کتابیں لکھیں، جن میں 11 کتابیں ہی ان زندگی کے دور میں شائع ہوئیں۔ برطانوی حکومت نے ان تمام کتابوں کو ضبط کر لیا۔

بنكم چندر چٹوپادھیائے نوشتہ وندے ماترم کے بعد رام پرساد بسمل کی تخلیق سرفروشی کی تمنا نے کارکنانِ تحریکِ آزادی میں بہت مقبولیت پائی۔

بسمل ان کا تخلص تھا بسمل کے علاوہ رام اور نامعلوم کے نام سے مضمون وغیرہ لکھتے تھےرام پرساد کو 30 سال کی عمر میں 19 دسمبر 1927ء کو برطانوی حکومت نے گورکھپور جیل میں پھانسی دے دی۔

كاكوری سانحہ کا مقدمہ لکھنؤ میں چل رہا تھا۔ پنڈت جگت نارائن ملا سرکاری وکیل کے ساتھ اردو کے شاعر بھی تھے۔ انہوں نے ملزمان کے لئے ” ملازم ” لفظ بول دیا۔ پھر کیا تھا، پنڈت رام پرساد بسمل نے جھٹ سے ان پر یہ چٹیلی پھبتی کسی:

ملازم ہم کو مت کہئے، بڑا افسوس ہوتا ہے
عدالت کے ادب سے ہم یہاں تشریف لائے ہیں
پلٹ دیتے ہیں ہم موج حوادث اپنی جرات سے
کہ ہم نے آندھیوں میں بھی چراغ اکثر جلائے ہیں

جب بسمل کو شاہی كونسل سے اپیل مسترد ہو جانے کی اطلاع ملی تو انہوں نے اپنی ایک غزل لکھ کر گورکھپور جیل سے باہر بھجوائی

مٹ گیا جب مٹنے والا پھر سلام آیا تو کیا !
دل کی بربادی کے بعد انکا پیام آیا تو کیا !

مٹ گئیں جب سب امیدیں مٹ گئے جب سب خیال ،
اس گھڑی گر نام اور لیکر پیام آیا تو کیا !

اے دل نادان مٹ جا تو بھی کوئے یار میں ،
پھر میری ناکامیوں کے بعد کام آیا تو کیا !

کاش! اپنی زندگی میں ہم وہ منظر دیکھتے ،
یوں سرے تربت کوئی محشرخرام آیا تو کیا !

آخری شب دید کے قابل تھی ‘بسمل’ کی تڑپ ،
صبح دم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا !

Leave a reply