اسلامی مہینوں میں تیسرا مہینہ ربیع الاول کا ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ جب ابتداء (شروع) میں اس کا نام رکھا گیا تو اس وقت موسم ربیع الاول کی ابتداء تھی۔ یہ مہینہ ساعتوں اور خیرات و برکات کا مہینہ ہے۔ کیونکہ اس مہینے کی بارہویں تاریخ کو اللّٰه تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے ہمارے اور آپ سب کے آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰ، رحمتہ اللعالمین کو پیدا فرما کر ہم سب پر اپنی رحمتوں اور نعمتوں کی بارش برسائی۔ اسی ماہ کو خاتم النبیین ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے اور اسی ماہ کی دسویں تاریخ کو محبوب ﷺ نے ام المومنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے نکاح فرمایا تھا۔ (عجائب المخلوقات صفحہ 45)
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
وما ارسلنک الا رحمتہ للعالمین۔
"اور (اے محمد ﷺ) ہم نے تم کو تمام جہانوں کے لیے رحمت (بنا کر) بھیجا ہے۔”
سورة الْاَنْبِیَآء 21:107
دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم نے تم کو دنیا والوں کے لیے رحمت ہی بنا کر بھیجا ہے دونوں صورتوں میں مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت دراصل نوع انسانی کے لیے خدا کی رحمت اور مہربانی ہے، کیونکہ آپ نے آ کر غفلت میں پڑی ہوئی دنیا کو چونکایا ہے، اور اسے وہ علم دیا ہے جو حق اور باطل کا فرق واضح کرتا ہے، اور اس کو بالکل غیر مشتبہ طریقہ سے بتا دیا ہے کہ اس کے لیے تباہی کی راہ کونسی ہے اور سلامتی کی راہ کونسی ۔ کفار مکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کو اپنے لیے زحمت اور مصیبت سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ اس شخص نے ہماری قوم میں پھوٹ ڈال دی ہے، ناخن سے گوشت جدا کر کے رکھ دیا ہے۔ اس پر فرمایا گیا کہ نادانو ، تم جسے زحمت سمجھ رہے ہو یہ درحقیقت تمہارے لیے خدا کی رحمت ہے۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ اس مہینہ مبارک میں بارہویں تاریخ کو بالخصوص محفلوں اور میلاد شریف کا انعقاد کیا جائے۔ اور محفل پاک ذریعہ ہدایت اور حصول برکات ہو گی۔
محفل میلاد شریف کی حقیقت، حضور کی ولادت پاک کا واقعہ بیان کرنا’ آپ کی کرامات، شیر خوارگی اور حضرت حلیمہؒ کے یہاں پرورش حاصل کرنے کے واقعات بیان کرنا ا ور حضور کی نعت پاک نظم یا شعر میں پڑھنا سب اس کے تابع ہیں۔ اب واقعہ ولادتِ نبی کا تذکرہ مبارک خواہ تنہائی میں ہو یا مجلس میں، شعر میں ہو یا نثر میں ‘ کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر جس طرح بھی کیا جائے اس کو میلاد شریف ہی کہا جائے گا۔
ضور نبی کریم کے یوم ولادت کے مہینے میں اہل اسلام ہمیشہ سے محافل منعقد کرتے چلے آئے ہیں اور اس مسرت کے موقع پر طرح طرح کے میٹھے پکوان پکاتے ہیں ، شب ولادت پر جی بھر کر خرچ کرتے ہیں اور قرآتِ قران کے ساتھ ساتھ نعتیہ مقابلوں کا بھی انعقاد کیا جاتا ہے۔ محفل میلاد شریف منعقد کرنا اور ولادت پاک کی خوشی منانا اور اس موقع پر خوشبو لگانا’ عرق گلاب چھڑکنا’ شیرینی تقسیم کرنا’ غرض کہ خوشی کا اظہار جس جائز طریقہ سے ہو وہ مستحب اور بہت ہی باعث برکت اور رحمت الٰہی کے حصول کا سبب ہے۔
حدیثوں میں آیا ہے کہ شب میلاد مبارک کو عالمِ ملکوت (فرشتوں کی دنیا) میں ندا سنائی دی کہ "سارے جہاں کو انوارِ قدس سے منور کردو” اور زمین و آسمان کے تمام فرشتے خوشی و مسرت میں جھوم اٹھے اور داروغہءجنّت کو حکم ہوا کہ فردوس اعلیٰ کو کھول دے اور سارے جہاں کو خوشبوﺅں سے معطر کر دے۔ اب آپ ہی سوچیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے آسمان پر بھی آمد مصطفیٰ کی خوشی منائی تو ہم، جو آپ کے امتی ہیں، کیوں نہ اپنے پیارے نبی کے میلاد کی خوشی منائیں۔ ہم جب جشن مناتے ہیں تو اپنی بساط کے مطابق روشنیاں کرتے ہیں قمقمے جلاتے ہیں’ اپنے گھروں’ محلوں دکانوں اور بازاروں کو ان روشن قمقموں اور چراغوں سے مزین و منور کرتے ہیں لیکن وہ خالق کائنات جس کے قبضے میں مشرق و مغرب ہے اس نے جب اپنے محبوب کے میلاد پر خوشےاں منانے کا حکم دےاچراغاں کروں تو نہ صرف مشرق و مغرب تک کائنات کو منور کر دیا بلکہ آسمانی کائنات کو بھی اس خوشی میں شامل کرتے ہوئے ستاروں کو قمقمے بنا کر زمین کے قریب کر دیا اور جس پیارے نبی کے وسیلے پر ہمیں یہ دنیا’ یہ جان’ یہ جہاں اور تمام نعمتیں ملیں اس پیارے نبی کی آمد پر ہم خوشی کیوں نہ منائیں۔
ماہ مُنّور کا چاند نظر آتے ہی سب مسلمان اپنے پیارے نبی کی ولادت کا جشن عقیدت واحترام سے منانے کی تیاریوں میں لگ جاتے ہیں۔ بچے’ بوڑھے’ مرد’ عورتیں سبھی اس ماہِ مبارک کی بارھویں تاریخ کو میلاد شریف کی مجالس کا اہتمام کرتے ہیں۔ پاکستان کے تمام شہر’ گلے کوچے ‘ محلے’ مساجد اور تاریخی عمارات کو قمقموں سے سجایا جاتا ہے اور چراغاں کیا جاتا ہے۔
مسلمان کے ایمان کا یہ اہم رکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا آپ کی محبت میں بنائی۔ ویسے تو سارے مہینے اور یہ کائنات آپ کے نعلین پاک کے صدقے چمک دمک رہی ہے۔ ماہ نور ربیع الاول کی آمد کے ساتھ ہی مسلمانوں کے جذبے دین اور آپ کی محبت کے چراغ جگہ روشن نظر آتے ہیں ۔
میلاد والے دن خوشبو لگانا:
یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی ولادتِ پاک کا واقعہ بیان کرنا، حمل شریف کے واقعات، نورِ محمدی کی کرامات، نسب نامہ یا شیر خوارگی اور حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنھا کے یہاں پرورش حاصل کرنے کے واقعات بیان کرنا اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی نعت پاک نظم یا نثر میں پڑھنا، سب اس کے تابع ہیں۔
اب واقعہ ولادت خواہ تنہائی میں پڑھو یا مجلس جمع کر کے، نظم میں پڑھو یا نثر میں، کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر جس طرح بھی ہو، اس کو میلاد شریف کہا جائے گا۔
محفلِ میلاد شریف کا شرعی حکم محفلِ میلاد شریف منعقد کرنا اور ولادت پاک کی خوشی منانا، اس کے ذکر کے موقع پر خوشبو لگانا، گلاب چھڑکنا، شیرینی تقسیم کرنا، غرضیکہ خوشی کا اظہار جس بھی جائز طریقہ سے ہو وہ مستحب اور بہت ہی باعثِ برکت اور رحمتِ الہی کے نزول کا سبب ہے۔
حوالہ:
(جاءَ الحق، حصہ اول، صفحہ#230
ربیع الاول میں کثرت سے درود پاک: ربیع الاول شریف کے مبارک مہینہ میں درود شریف کثرت سے پڑھنا چاہے۔ ایک روایت میں ہے کہ جو کوئی اس ماہ کی تمام تاریخوں میں یہ درود پاک ۔ "اللھم صلی علی محمد وعلیٰ اٰل محمد کما صلیت علی ابراہیم وعلیٰ اٰل ابراہیم انک حمید مجید ایک ہزار ایک سو پچیس (1125) مرتبہ نماز عشا کے بعد پڑھے گا تو اس کو خواب میں امام الانبیاءو المرسلین کی زیارت ہو گی اگر کوئی بندہ مومن ماہ ربیع الاول میں اس درود شریف الصلوٰة والسلام علیک یا رسول اللّٰہ کو سوا لاکھ مرتبہ پڑھے تو وہ یقینا حضور پر نور شافع یوم النشور کی زیارت سے مشرف ہو گا۔ کتاب الاوراد میں لکھا ہے کہ جب ربیع الاول شریف کا مبارک چاند نظر آئے تو اس رات کو سولہ رکعت نفل پڑھے جائیں۔ دو دو رکعت کرکے اور ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد قل ھو اللّٰہ احد تین تین مرتبہ پڑھے جب سولہ رکعت پڑھ لے تو یہ درود شریف ایک ہزار مرتبہ پڑھے۔ اللّٰھم صلی علی محمدن النبی الامی رحمة اللّٰہ و برکاتہ اور بارہ روز تک یہ پڑھتا رہے تو سید المرسلین محبوب رب العالمین حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفےٰ کی زیارت خواب میں ہو گی۔ مگر عشاءکی نماز کے بعد اس کو پڑھا کرے اور پھر باوضو سویا کرے۔ (فضائل الشہور)
اولیائے الہی نے حضرت محمد مصطفیٰ (ص) کی ولادت باسعادت کو ماہ ربیع الاول کا ایک اہم ترین واقعہ قرار دیتے ہیں اور اسی مبارک واقعہ کی وجہ سے ہی اس مہینے کو بہار کا نام دیتے ہیں۔
بنی نوع انسان کو دین اسلام کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی جتنی برکات اور مہربانیاں حاصل ہوئی ہیں وہ کامل ترین انسان یعنی حضرت محمد مصطفیٰ (ص) کے مقدس وجود کی برکت کی وجہ سے ہیں کہ جو اس مہینے میں اس دنیا میں آئے تھے۔
اس مہینےکی شرافت دیگر تمام مہینوں سے زیادہ ہے اور یہ مہینہ حقیقت میں دیگر مہینوں کی بہار ہے کیونکہ نبی اکرم (ص) کے نورانی وجود کی وجہ سے ہی تمام شرافتیں، رحمتیں، دنیاوی اور اخروی عنایات اور نبوت، امامت ، قرآن اور شریعت نازل کی گئی ہے۔
میں اپنی بات کا اختتام اقبال کے اس شعر سے کرنا چاہوں گا ۔
کی محمد ﷺ سے وفا تونے تو ہَم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح قلم تیرے ہیں
Twitter Handle: @AliHamz21