بھارت اور فرانس کے درمیان 7.8 ارب یورو (9.3 ارب ڈالر) مالیت کے رافیل جنگی طیاروں کے سودے کی شفافیت پر اٹھنے والے سوالات نے ایک نیا موڑ لے لیا ہے، کیونکہ اب ایک فرانسیسی تحقیقاتی جج کو اس معاہدے کی مکمل تحقیقات کے لیے مقرر کر دیا گیا ہے۔
یہ معاہدہ ستمبر 2016 میں بھارتی حکومت اور فرانسیسی طیارہ ساز کمپنی "داسو ایوی ایشن” کے درمیان طے پایا تھا، جس کے تحت بھارت کو 36 جدید رافیل طیارے فراہم کیے گئے۔ اس سودے پر طویل عرصے سے بدعنوانی اور اقرباپروری کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔فرانس کی مالیاتی جرائم کی تحقیقاتی ایجنسی PNF (National Financial Prosecutor’s Office) نے ابتدائی طور پر اس معاملے کی تحقیقات سے انکار کر دیا تھا، جس پر فرانسیسی تحقیقی ویب سائٹ Mediapart نے PNF اور فرانسیسی انسداد بدعنوانی ایجنسی پر اس معاملے کو "دبا دینے” کا الزام عائد کیا۔اپریل میں Mediapart نے ایک چشم کشا رپورٹ شائع کی، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ داسو ایوی ایشن نے معاہدے کی تکمیل میں مدد کرنے والے ایک ثالث کو "کروڑوں یورو کی خفیہ کمیشن” ادا کی، جن میں سے کچھ رقم ممکنہ طور پر بھارتی حکام کو رشوت کے طور پر دی گئی۔
داسو نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کی اندرونی آڈٹ رپورٹس میں کسی قسم کی بے ضابطگی سامنے نہیں آئی۔
ان الزامات کے بعد فرانس کی معروف غیر سرکاری تنظیم Sherpa، جو مالیاتی جرائم کی تحقیقات میں مہارت رکھتی ہے، نے "بدعنوانی” اور "اثرو رسوخ کے غلط استعمال” جیسے الزامات کے تحت باضابطہ شکایت درج کروائی، جس کے نتیجے میں فرانسیسی عدلیہ نے ایک تحقیقاتی جج کو مقرر کر دیا۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ Sherpa نے اس سودے کے خلاف کارروائی کی ہو۔ 2018 میں بھی تنظیم نے اسی معاہدے کی شفافیت پر سوال اٹھاتے ہوئے تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا، تاہم اس وقت PNF نے کوئی کارروائی نہیں کی۔Sherpa کا ایک اہم اعتراض یہ ہے کہ داسو نے بھارتی پارٹنر کے طور پر ریلیانس گروپ کو کیوں چُنا، جو ایک بڑی مگر فضائی صنعت سے ناواقف کمپنی ہے۔ اس گروپ کے سربراہ انیل امبانی ہیں، جو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے قریبی ساتھی مانے جاتے ہیں۔
یاد رہے کہ داسو نے ابتدائی طور پر 2012 میں بھارت کو 126 رافیل طیارے فراہم کرنے کا معاہدہ جیتا تھا اور اس وقت وہ ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ (HAL) سے بات چیت کر رہا تھا۔ مارچ 2015 تک یہ بات چیت تقریباً مکمل ہو چکی تھی، لیکن اپریل میں وزیر اعظم مودی کے فرانس کے سرکاری دورے کے فوراً بعد یہ مذاکرات اچانک ختم ہو گئے، جس پر مبصرین حیران رہ گئے۔اس کے بعد ریلیانس گروپ، جس کا فضائی صنعت میں کوئی تجربہ نہیں، اچانک HAL کی جگہ لے کر معاہدے کا نیا فریق بن گیا اور صرف 36 طیاروں پر نیا معاہدہ طے پایا۔
فرانسیسی اخبار Le Monde نے انکشاف کیا کہ 2015 میں، جب رافیل معاہدے پر بات چیت ہو رہی تھی، فرانس نے ریلیانس گروپ سے منسلک ایک فرانسیسی کمپنی پر عائد 143.7 ملین یورو کا ٹیکس ایڈجسٹمنٹ اچانک ختم کر دیا۔ یہ اقدام بھی معاہدے کے دوران دی گئی ممکنہ مراعات میں شمار کیا جا رہا ہے۔








