اسلام آباد:ریلوے کی اصلاح یا ریلوے تباہ:حقائق سن کرآنکھیں کُھل گئیں ،اطلاعات کے مطابق پاکستان ریلوے میںافسران نے مسافرکوچز کا مصنوعی بحران پیداکردیا،88ٹرینوں چلانے کے لیے 50مسافرکوچز شارٹ کردیں،ٹرنیوں میں 50 کوچز کی کمی نے ریلوے کاپورا نظام بیٹھا دیا،سٹیشنوں پر مسافروں اور ریلوے حکام میں لڑائی جھگڑا معمول بن گیا،

ذرائع کے مطابق پسنجرٹرنیوں میں کوچز کی کمی کی وجہ سے مسافر انجن اور چھتوں پر سفر کرنے پر مجبورہیں،مسافر کوچزکی کاغذات میں شدید کمی کے باوجود ریلوے افسران نے سیاسی شخصیت جو کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے رکن ہیں کہ کہنے پر ان کے حلقے میں دوٹرینیں 14اگست کوچلانے کافیصلہ کرلیا۔کروناسے پہلے 134مسافرٹرینیں چلتی تھیں جو اب 88 ہیں مگر اس کے باوجود مسافر کوچز کہاں چلی گئیں ریلوے حکام کے پاس کوئی جواب نہیں ، کیرج فیکٹری اور لاہورمیں مرمت ہونے والی کوچز بھی سسٹم میں شامل نہیں کی جارہی ہیں۔

حکام کاکہناہے کہ ریلوے میں مسافرکوچز کے بحران کو ختم کرنے میں سال لگ جائے گا۔اس خبررساں ادرے کے مطابق7 جون کو سانحہ گھوٹکی جس میں سرسید ایکسپریس اور ملت ایکسپریس میں حادثہ ہواتھا جس کے بعد وزیر ریلوے نے ریلوے افسران پر شدید برہمی کاظہارکیاتھا جس کے ردعمل میں ریلوے افسران نے فوری طور پر بڑی تعداد میں مسافرکوچز سسٹم سے نکال لیں جس سے ریلوے کومسافر ٹرینوں کوچلانے کے لیے شدید مشکلات کاسامنا شروع ہواور ٹرنیوں کومسافر کوچز نہ ہونے کی وجہ سے بار بار منسوخ کرناپڑرہاتھا اسی وجہ سے جناح ایکسپریس ٹرین کوبھی ختم کردیاگیاجس مسافر کوچز میں معمولی نقص تھا اور معمولی مرمت کے بعد ٹھیک ہوسکتاتھا اس کوبھی سسٹم سے ہٹادیاگیاڈیڑھ ماہ گزرجانے کے باوجود سسٹم میں مسافر کوچز کی کمی کو پورا نہ کیاجاسکا اور نہ ہی مسافر کوچز جن میں معمولی نقص تھاان کوٹھیک کرکے سسٹم میں لایاجاسکا۔پاکستان ریلوے کو 88 مسافر ٹرنیوں کو چلانے میں شدید دشواری کاسامناہے

اس وقت ریلوے کو 50 مسافرکوچز کی شدید کمی کاسامناہے جس کی وجہ سے مسافر جب ٹکٹ لے کر سٹیشن پہنچتے ہیں تو ان کومعلوم ہوتاہے کہ کوچز کی کمی کی وجہ سے ان کی کوچ ٹرین میں موجود ہی نہیں ہے۔مسافر کوچ نہ ہونے کی وجہ سے ریلوے سٹیشنوں پر مسافروں اور ریلوے حکام کے درمیان لڑائی معمول بن چکی ہے جبکہ اس کے ساتھ پسنجر ٹرینوں سے بھی کوچز کم کردی گئیں ہیں جس کی وجہ سے مسافر انجنوں اور مسافر کوچز کی چھتیوں پر سفر کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔کیرج فیکڑی اسلام آباد میں ماہانہ 12 کوچز اوسط کے حساب سے بن رہی ہیں جبکہ لاہور فیکڑی میں 80 کوچز ماہانہ مرمت ہوکر نکل رہی ہیں مگر ان دونوں جگہوں سے بننے والی کوچز کہاں جارہی ہیں اور سسٹم میں کیوں شامل نہیں ہورہی ہیں

یہ بڑاسوالیہ نشان ہےکوچز کی کمی کی وجہ سے آوٹ سورس ہونے والی ٹرنیں سے بھی دوکوچزکم کردی گئیں جس سے ریلوے کوسوفیصد ادائیگی نجی کمپنی کوکرنی پڑے گی ۔ذرائع کی بات کے ریلوے افسران جان بوجھ کرریلوے میں بحران پیداکررہےہیں جب کاغذات میں مسافر کوچز کی شدید کمی اور موجود ٹرنیوں کی کوچز دستیاب نہیں ہیں کے باوجود پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے رکن جو کہ پی اے سی کی سب کمیٹی کے کنوئینر بھی ہیں اور ریلوے کے حوالے سے آڈٹ اعتراضات ان کی سب کمیٹی میں آتے ہیں نے ریلوے حکام سے ملاقات کی اور اپنے حلقہ میں دومسافرٹرینیں چلانے کاکہا ریلوے افسران نے کاغذات میں مسافر کوچز کی شدید کمی کے باجود شورکوٹ کے لیے دوٹرینیں چلانے ان کویقین دہانی کرائی بلکہ 14اگست کو دونوں ٹرینیں چلانے کے لیے اقدامات بھی شروع کردیئے ۔

ریلوے حکام نے اس خبررساں ادارے سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ ریلوے نظام میں 50 مسافر کوچز کی کمی کاسامناہےسانحہ گھوٹکی سے پہلے افسران جس کوچ میں معمولی نقص ہوتا اس کو جانے دیتے تھے مگر اب افسران کسی قسم کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار نہیں ہیں جس کی وجہ سے کوچز کی کمی کاسامناہے ریلوے سسٹم میں 11سو کوچز ہیں کوچز کی کمی کوپوراکرنے کے لیے اقدامات کررہے ہیں مکمل طور پر اس بحران سے نکلنے میں ایک سال لگے گا۔کوچزکی کمی کے باوجود دو نئی ٹرینیں کس طرح چلائی جارہی ہیں ان کاان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ترجمان ریلوے کوبھی اس حوالے سے تفصیلی سوال نامہ بھیجاگیامگر انہوں اپناموقف نہیں دیا۔

Shares: