میوات سے تعلق رکھنے والے مسلمان رکبر خان جو گائے سمگلنگ کے الزام میں گزشتہ برس الوار کے لالہ ونڈی گاؤں میں شہید کر دیئے گئے تھے، کا خاندان تاحال انصاف کا منتظر ہے۔خان اپنے دوست کے ساتھ دو گائے خرید کر میوات جارہے تھے جب ان کا ایک پرتشددگروپ سے سامنا ہوا۔ ہجوم نے خان کو پکڑ لیا جبکہ اسلم نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔
انتہا پسند ’گاؤ رکشکوں‘ کے ہاتھوں تین اور مسلمان شہید
گائے سمگلنگ کے الزام میں کولگاؤن گاؤن کے خان کا قتل پہلا نہیں تھا۔ اس سے پہلے پہلو خان کو جے سنگھ پور گاؤں میں اسی الزام کے تحت شہید کر دیا گیا تھا۔
ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق 20جولائی 2018کے واقعات ابھی تک آسمینہ کے ذہن میں تازہ ہیں۔ آسمینہ نے کہا کہ میں نے اسے باربار فون کیا لیکن اس کا فون بند کردیا گیاتھا۔اگلے دن گاؤں ک سربراہ کی طرف سے ایک فون میں خان کی شہادت کی اطلاع دی گئی۔
آسمینہ کے مطابق اسے پولیس میں لے جایا جا سکتا تھا۔ انہوں نے اسے قتل کیوں کیا؟انہوں نے ایک گائے کے لیے انسانی زندگی کو ختم کر دیا۔ ایک جانور کی زندگی سے تو پیار ہے لیکن انسانی زندگی کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے۔
آسمینہ نے کہا کہ خان کا واحد جرم مسلمان ہونا تھا۔ ہم گائے سے بچوں کی طرح سلوک کرتے تھے۔ ہماری آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں۔ ہم گائے کے دودھ فروخت کر کے گزر بسر کر رہے ہیں۔
اس دن خان نے آسمینہ سے 30000روپیہ لیا اور اسے کہا کہ وہ رامگڑھ سے گائے خریدیں گے۔ خان زیادہ دوھ فروخت کر کے اپنی آمدنی میں اضافہ کرنا چاہتا تھا اور اپنے بچوں کو اسکول میں بھیجنا چاہتا تھا۔ آسمینہ جانتی تھی کہ وہ اپنی زندگی کے بڑا خواب کو پانے کے لیے کچھ بھی قیمت ادا کر لے گا۔
”قاتلوں نے اسے بے رحمی سے قتل کیا، اس کی گردن تین جگہ سے ٹوٹ گئی تھی۔ اب صرف اس کی یادیں رہ گئی ہیں جنہیں میں کوشش کر کے بھی بھلا نہیں سکتی۔ وہ ایک محبت کرنے والے والد اور شوہر تھے۔“ آسمینہ نے کہا۔
دہلی، جے شری رام کا نعرہ نہ لگانے پرہندو انتہا پسندوں نے کیا امام مسجد پر تشدد
خان نے آسمینہ اور سات بچے چھوڑے ہیں۔ سب سے بڑی 14سالہ بیٹی ساہیلا اور سب سے چھوٹی 7سالہ مانشیلا اپنی ماں کے ساتھ رہ رہی ہیں جبکہ ان کے بھائی علی گڑھ میں ایک خیراتی مدرسے میں زیرتعلیم ہیں۔
آسمینہ کے مطابق ان کے بچوں کو اامید ہے کہ وہ کچھ بہتر کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جو ان کو بااختیار بنائے گا اور ان سے زندگی کا حق اس طرح نہیں چھینے گا جیسے ان کے باپ کے ساتھ ہوا۔
آسمینہ نے کہا کہ بچے والد کی شہادت کے بعد 15دنوں کے اندر اندر علیگڑھ چلے گئے۔ یہ ایک مشکل فیصلہ تھا لیکن مجھے ان کے بہتر مفاد میں فیصلہ کرنا تھا۔ میں کسی طرح کی حمایت کے بغیر ان سب کی دیکھ بھال کیسے کر سکتی تھی؟
تاہم، اس کے بعد کے دن اسماء اور اس کے بچوں دونوں کے لئے آزمائش تھے۔ ”ہاسٹل وارڈن اکثر کال کرتے تھے کہ میرے بچے چیخیں مار کر روتے تھے۔ جب وہ اپنے والد کو یاد کرتے ہیں تو وہ اپنے آنسو کو کنٹرول نہیں کر سکتے۔ وہ اسے بہت یاد کرتے ہیں۔میرا گھر جہاں ہر وقت خوشیاں ہوتی تھیں اب خالی ہو گیا ہے۔خان کے جانے کے بعد زندگی میں کوئی خوشی نہیں ہے۔وہ اپنے بچوں سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔یہاں تک کہ محدود وسائل کے ساتھ، انہوں نے تمام وعدوں کو پورا کرنے کی کوشش کی۔ لڑکیاں ان کو یاد کر کے اب بھی روتی ہیں۔“ اس نے کہا
بھارت میں ٹوپی پہننے پر ہندو انتہا پسندوں کا مسلمان نوجوان پر تشدد
اس حادثے کے بعد، ہریانہ حکومت اور ہریانہ وقف بورڈ نے خاندان کو 5 لاکھ اور 3 لاکھ کا معاوضہ دیا.
جب آسمینہ اپنے شوہر کے کھونے کے غم کو کم کر رہی تھی، اس کے ایک سانحہ ہو گیا۔ خاوند کی شہادت کے چار ماہ بعد جب آسمینہ، اس کی بیٹی ساحلہ اور بھانجی سنجیدہ کے ساتھ دیگر فیملی ممبرز کو ملنے علی گڑھ جا رہے تھے کہ ان کی کار کو حادثہ پیش آگیا
آسمینہ نے کہا، ”میں پہلی بار بچوں سے ملنے جا رہی تھی۔ صبح سویرے ہم کرائے کی کار میں ہائی وے تک پہنچے جب ایک ٹرک نے ان کی کار کو ٹکر مار دی۔ یہ سب چند سیکنڈوں میں ہو گیا۔ مجھے تین دن بعد ہوش آیا تو میں ہسپتال کے بیڈ پر تھی۔“
سنجیدہ کو کم چوٹیں آئیں جبکہ آسمینہ اور اس کی بیٹی شدید زخمی ہوئیں۔آسمینہ 20دن کے لیے نئی دہلی کے ٹراما سنٹر میں زیر علاج رہیں جبکہ ساحلہ کا میوات کے میڈیکل کالج میں علاج معالجہ ہوا۔
آسمینہ حادثے کے بعد سے بیڈ ریسٹ پر ہے اور اپنے میکے رہ رہی ہے۔ ڈاکٹروں کو بھی اس کے دوبارہ چلنے کی امید نہیں ہے۔ آسمینہ کی والدہ کریمن کے مطابق ماں بیٹی کے علاج پر ایک لاکھ روپے کا خرچہ ہوا ہے۔
تمہیں پاکستان ہونا چاہیے، بھارت میں مسلم نوجوان کے نام بتانے پر ہندوانتہاپسندوں نے گولی مار دی
والدہ کے مطابق بینک اکاؤنٹ کولگاؤن کے قریب دوہا گاؤں میں ہے۔ آسمینہ کے سسرال والے اس کے رقم نکالنے کے حق میں نہیں ہیں۔ ہم نے دو مواقع پر 50000روپے آسمینہ کے علاج معالجہ پر خرچ کیے۔
آسمینہ نے کہا کہ اسے انصاف ملنے کی بہت تھوڑی امید ہے کیونکہ اس واقعہ کے بعد ایک سال بعد بھی تمام ملزمان کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا جا رہا ہے۔تاہم، وہ چاہتی ہے کہ قاتلوں کو سزائے موت دی جائے۔جنہوں نے خان کو قتل کیا ہے اسے سزائے موت یا زندگی قید دی جانی چاہئے۔ حکومت نے ان کی طرف توجہ نہیں دی ہے۔
گذشتہ سال، ساحلہ کولگاؤن کے قریب سرکاری اسکول میں کلاس 5 میں زیرتعلیم تھی۔ خان کے بعد ساحلہ نے گھر کی ذمہ داری سنبھال لی اور اسے سکول چھوڑنا پڑا۔ وہ صبح سویرے جاگ کر گائے کو چارہ ڈالتی اور آٹھ بجے سکول چلی جاتی اور سہ پہر تین بجے واپس آتی۔ اب وہ سکول کو یاد کرتی ہے۔
ساحلہ کے مطابق وہ ہندی، ریاضی اور انگلش کو پسند کرتی تھی۔ ہمیں سکول میں انگلش سکھائی جارہی تھی۔ مجھے انگلش حروف اب بھی یاد ہیں اور کچھ لکھ بھی سکتی ہوں۔
”اگر مجھے موقع ملا میں دوبارہ سکول جاؤں گی۔پڑھنے کے بعد میں وکیل یا استاد بن سکتی ہوں۔ میں علم کے بغیر کیا کر سکتی ہوں؟“
گذشتہ سال 21جولائی کو ساحلہ مدرسہ میں تھی جب ایک لڑکے نے اسے والد کی موت کی خبر دی۔ساحلہ نے کہا ”مدرسہ میں مجھے ایک طالب علم نے بتایا کہ میرا باپ قتل ہو چکا ہے۔ میں نے اسے جانے کا کہا کہ یہ درست نہیں ہو سکتا۔ میرا باپ تو کام پر گیا تھا۔“
ساحلہ نے اپنے باپ کو راجھستان سے کپڑے اور برفی لانے کا کہا تھا۔ ”ا س نے تمام اشیاء لانے کا وعدہ کیا تھا لیکن وہ کبھی واپس نہیں آیا۔ میں اسے بہت یاد کرتی ہوں“۔ ساحلہ نے کہا
خان کے ساتھ جانے والے اسلم بچ جانے میں کامیاب ہو گیا لیکن وہ اور اس کا خاندان خوف کی زندگی گزار رہے ہیں
واقعہ کے عینی شاہد نے بتایا کہ قاتلوں نے اسے دھمکی دی جب میں نے انہیں عدالت میں شناخت کیا۔ اس کے بعد سے وہ گاؤں سے باہر جانے سے اجتناب کرتا ہے
اسلم نے واقعہ کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا ”ہم دو کو گائے سمگلر قرار دے کر، انہوں نے خان کو لاٹھی اور رائفلوں کے بٹ سے مارنا شروع کر دیا۔ اسی اثنا میں اسلم کاٹن کے کھیت میں گھس گیا“
”میں گھنٹوں وہاں چھپا رہا۔ میں بچ گیا تھا لیکن میں خان کے ساتھ جو ہوا کبھی نہیں بھول سکتا۔ وہ مسلسل معافی مانگتا رہا لیکن ان کا دل نہیں پسیجا۔“
اسلم نے عدالت میں پانچ لوگوں کو شناخت کر لیا تھا جن میں سے تین زیر حراست ہیں۔