رنگیلاالیکشن کمیشن  تحریر۔سید لعل حسین بُخاری

0
52

لگتا ہے الیکشن کمیشن شفاف اور منصفانہ انتخابات ،نئی انتخابی اصلاحات اور اوورسیز پاکستانیوں کے حق راۓ دہی کے خلاف دم ٹھونک کے میدان میں آگیا ہے۔

الیکٹرونک ووٹننگ مشین کے خلاف قائمہ کمیٹی میں پیش کئے 37 اعتراضات ،اعتراضات کم اور لطیفے زیادہ لگتے ہیں۔

خاص طور پر یہ اعتراض تو تاریخی پزیرائ کا باعث بن چُکا ہے۔جس میں الیکشن کمیشن نے کچھ زیادہ ہی دور کی کوڑی لاتے ہوۓ کہا کہ اس مشین کو ایلفی ڈال کر جام کیا جا سکتا ہے۔اس اعتراض پر تو اگرارسطو بھی زندہ ہوتا تو شائد خود کُشی کو ترجیح دیتا۔

کل سے اس ایلفی والی بات کو لیکر الیکشن کمیشن کی جو دُرگت سوشل میڈیا پر بن رہی ہے،وہ شائد اس کمیشن خور کمیشن کے لئے کافی ہو۔

ایلفی کی بحیثیت ایک پراڈکٹ کے،جتنی مشہوری کمیشن والوں نے کروادی ہے،اتنی شائد وہ کروڑوں کے اشتہارات چھپوا کر بھی نہ کر پاتے۔

ایلفی والے ماوراۓ عقل اعتراض کے علاوہ دیگر اعتراضات بی اسی طرح چُوں چُوں کا مُربہ ہی ہیں۔

ان اعتراضات کو تو اعتراض براۓ اعتراض کہنا بھی مناسب نہیں لگتا۔

کسی ایک اعتراض میں بھی عقل و شعور کی ہلکی سی رمق بھی نہیں ہے۔

بس لگتا ہے کہ موجودہ حکومت کو نیچا دکھانے کے لئے کسی کے اشارے پر کھیل تماشا کیا جا رہا ہے۔

الیکشن کمیشن میں بیٹھی کٹھ پُتلیوں کی ڈوریاں کہاں سے ہل رہی ہیں،

سب کو پتہ ہے۔یہ گٹھ جوڑ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔

اس گٹھ جوڑ کو خونی لبرلز کی حمایت سب کچھ واضح کرنے کے لئے کافی ہے۔

الیکشن کمیشن اپنی پوری توانائیاں اس بات پہ صرف کر رہا ہے کہ کسی طرح آئندہ انتخابات کو شفاف انعقاد سے روک کر اسی دقیانوسی طریقے سے منعقد کروایا جاۓ،

جس میں مُردے بھی ووٹ ڈالنے آجاتے ہیں۔

پرانے سسٹم میں جعلی ووٹوں کا اندراج اب کوئ راز والی بات نہیں۔

پنجاب میں ن لیگ اور سندھ میں پی پی امیدواران بیس سے پچیس ہزار بوگس ووٹوں کا تحفہ لیکر گھر سے نکلتے ہیں،

جس کے بعد انہیں مدمقابل امیدوار تو ہرانے کی پوزیشن میں آہی نہیں سکتا،

ہاں اگر بدقسمتی آڑے آجاۓ تو الگ بات۔

کمیشن نے صرف الیکٹرونک ووٹننگ مشین میں ٹانگ نہیں اڑائ ہوئ بلکہ انتخابی اصلاحات کی شدید مخالفت کا بیڑہ بھی اُٹھارکھا ہے۔

کمیشن اس وقت ن لیگ ،پی پی اور فضل الرحمن کی جماعت کی طرح پی ڈی ایم کا باقاعدہ حصہ نظر آتا ہے۔

انوکھے لاڈلے کمیشن کی ایک اور ضد یہ بھی ہے کہ حکومتی کوششوں کے برعکس اوورسیز پاکستانیوں کو بھی حق راۓ دہی سے محروم رکھا جاۓ۔

یہ وہی اوورسیز پاکستانی ہیں،جنہیں وزیر اعظم پاکستان عمران خان ملک کا اثاثہ کہتے نہیں تھکتے،

یہ وہی اوورسیز پاکستانی ہیں،

جن کے بھیجے گئے زرمبادلہ کے باعث ملک معیشت کا پہیہ رواں دواں ہے۔

جبکہ کمیشن والے ان سے سوتیلی ماں والا سلوک کرنے پر تُلے ہیں۔

الیکشن کمیشن کو تو بس اتنا کسی نے بتا دیا ہے کہ اگر اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کا حق دے دیا جاۓ تو پی ٹی آئ کو فائدہ ہوگا،

کیونکہ بعض تجزیوں کے مطابق بیرون ملک پاکستانیوں کی اکثریت عمران خان کے وژن کی حامی ہے۔

اسی ایک مفروضے کی بدولت کمیشن والے سر دھڑ کی بازی لگاۓ ہوۓ ہیں کہ کسی طرح بھی،

اوورسیز پاکستانیوں کو اس حق سے محروم رکھ کر ن لیگ اور پی پی کو اس سیاسی نقصان سے بچایا جاۓ۔

الیکشن کمیشن کے 37 اعتراضات میں نہ تو کوئ ٹھوس دلیل ہے اور نہ ہی کوئ ایسی وجہ،

جو الیکٹرونک ووٹننگ مشین کی افادیت کو کم کر سکے۔

پاکستان میں روایت بن چکی ہے کہ ہر الیکشن میں ہارنے والا نہ تو اپنی شکست تسلیم کرتا ہے اور نہ ہی آئندہ پانچ سال وہ جیتنے والے کو دلجمعی سے کام کرنے دیتا ہے۔

دھاندلی کا رونا روتے روتے پانچ سال گزر جاتے ہیں اور پھر نئے رونے دھونے کی بنیاد رکھنے کے لئے نئے بوگس،غیر شفاف اور ایک اور متنازعہ انتخابات کا انعقاد کروا دیا جاتا ہے۔

یہ سارا گورکھ دھندا الیکشن کمیشن کی چھتر چھایا میں ہوتا ہے۔

پھر بھی وہ دھاندلی زدہ الیکشن کروانے پر بضد ہے۔

سب کچھ جانتے بوجھتے ہوۓ بھی وہ انجان بنے بیٹھے ہیں۔

وہ بے قرار ہو کر پیچ وتاب کھاۓ جا رہے ہیں کہ آئندہ انتخابات بھی اُن کے آقاؤوں کی خواہش کے عین مطابق کرواۓ جا سکیں،

اتنی بے قراری ظاہر ہے،

بے سبب تو نہیں ہوتی،

جاننے والے اس بے قراری کا سبب جانتے بھی ہیں اور اس سبب کو دور کرنےکی تدبیر کرنا بھی جانتے ہیں۔

اس تدبیر کا استعمال الیکشن کمیشن کے مکمل ایکسپوز ہونے کے بعد یقینا” کیا بھی جاۓ گا،

کیونکہ ملک کی تقدیر زیادہ دیر ان کمیشنوں کی نظر نہیں کی جا سکتی۔

پہلے ہی بہت دیر ہو چُکی،

مُلک کا ہر ادارہ تباہ کیا جا چُکا۔

اگر مُلک کو چلانا ہے تو ان کمیشنوں کو ہر صورت راہ راست پہ لانا ہو گا۔

ان سے بغیر کمیشنوں کے فرائض سرانجام دلوانا ہوں گے۔

انکی مادر پدر آزادی نے ان کے پیٹ تو بھر دئے ہیں مگر ملک کی جڑیں کھوکھلا کر دی ہیں۔

الیکشن کمیشن جیسے اداروں کی زور زبردستیوں،

من مانیوں اور بدمعاشیوں سے لگتا ہے کہ ملک ان جیسے اداروں کا ماتحت ہے نا کہ یہ ادارے اس ملک کے ماتحت۔

ہر بار متنازعہ انتخابات کی شرمناک تاریخ رکھنے کے باوجود الیکشن کمیشن اپنا وطیرہ بدلنے کو تیار نہیں۔

بے شمار اور بے حساب لعن طعن کے باوجود کمیشن اپنا قبلہ بدلنے کو تیار نہیں۔

مگر اب یہ زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔

اس قسم کے جانبدار کمیشنوں اور مافیاز کو مزید اس ملک کی تقدیر سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

اب ان اداروں کو قانون کے تابع لانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

یہی وہ وقت ہے،

جب ان بگڑوں تگڑوں کو سیدھا کیا جا سکتا ہے۔اداروں کا اس وقت ایک پیج پر ہونا اس ملک کی خوش قسمتی ہے۔اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور اس ملک کو بنانا سٹیٹ بنانے والوں کو نتھ ڈالنی چاہیے۔

عمران خان اللہ کے بعد اس ملک کے محب وطن عوام کی آخری امید ہے۔

اگر عمران خان کے دور میں یہ بوسیدہ نظام درست نہ ہوا تو پھر کبھی نہیں ہو گا،

خدانخواستہ بالخصوص اگر ن لیگ یا پی پی برسر اقتدار آگئیں تو اس بوسیدہ نظام کے ٹھیک ہونے کی اُمید ہمیشہ کے لئے دم توڑ جاۓ گی،

پھر یہ نظام سدھرنے کے بجاۓ مزید اُجڑے گا،

کیونکہ یہ دونوں پارٹیاں بذات خود اس بوسیدہ اور فرسودہ نظام کی معمار ہیں۔

یہ کمیشن نما مافیاز انہیں کے لگاۓ ہوۓ ہوۓ بُوٹے ہیں۔

ان پارٹیوں نے خود انہیں حرام کھلا کھلا کے ایسے کمیشنوں کی آبیاری کر رکھی ہے۔

اپنے ہاتھوں سے لگاۓ گئے پودے کون اپنے ہاتھوں سے تلف کرتا ہے؟

خاص طور پر کرپشن کے وہ پودے،

جو ان کی کرپشن پر شجر سایہ دار کی طرح چھاؤں بنا کے رکھتے ہوں #

تحریر ۔سید لعل حسین بُخاری

@lalbukhari

Leave a reply