رٹہ نہیں ہنر سکھاؤ . تحریر : نعمان سرور

پاکستان وہ ملک ہے جس کی آبادی کا بہت بڑا حصہ نوجوان آبادی پر مشتمل ہے، پاکستان کی تقریبا 63 فیصد آبادی نوجوان ہے یہ ہمارے ملک کا بہت بڑا اثاثہ ہے جسے برباد ہونے کے لئے چھوڑ دیا گیا ہے اور ماں باپ ،بچے اور اہل علم سمیت سب ہی بس اس راستے پر چلتے جا رہے ہیں یہ نہیں سوچ رہے کیا ہماری سمت درست ہے ؟؟

پاکستان میں ہر سال لاکھوں بچے کالج سے فارغ ہو کر یونیورسٹی کی تعلیم کے لئے میدان میں آتے میرٹ کے مختلف مراہل سے گزر کر اگر اچھی یونیورسٹی میں داخلہ نہ بھی ملے تو کسی پرائیوٹ میں تو مل ہی جاتا ہے پھر نوجوان اپنے زندگی کے چار سال اس یونیورسٹی میں گزارتے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق ایک طالب علم کا اوسطا خرچ چار سالوں میں 20-25 لاکھ سے زیادہ ہوتا ہے اور اس کے ساتھ زندگی کے چار سال بھی اس میں جھونک دئیے جاتے ہیں۔

دنیا اب تیز اور آگے کی طرف بڑھ گئی ہے کچھ فیلڈ ایسی ہیں جن میں واقعی طالب علم کو یونیورسٹی جانے کی ضرورت پیش آتی ہے لیکن ہر فیلڈ کے لئے ایسا ہر گز نہیں ہے، یونیورسٹی سے لاکھوں خرچ کر کے بھی جب طالب علم ڈگری لے کر باہر نکلتا ہے تو اس کو اصل کام فیلڈ میں سیکھنا پڑتا ہے ہماری کتابوں میں موجود چیز یں اسے وہ نہیں سکھا پاتی جو فیلڈ میں وہ چند سالوں میں سیکھ جاتا ہے، اور اکثر نوجوان یونیورسٹی کی ڈگری لے کر بھی بے روزگار پھر رہے ہوتے ہیں کیا ہی اچھا ہو کے انٹرمیڈیٹ کی تعلیم کے بعد نوجوانوں کو انہیں یونیورسٹیوں کی فیسز کم کر کے ان کو وہ ہنر سکھایا جائے وہ تعلیم دی جائے جو آجکل کے وقت میں ان کے کام آئے اور وہ روزگار خود حاصل کر سکیں ہمارا سلیبس آج بھی فلاپی ڈسک پڑھا رہا، بچہ جب عملی میدان میں جاتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کے وہ تو 30 سال پیچھے کی تعلیم حاصل کر کے آیا ہے پھر وہ فیلڈ میں مار کھا کر سیکھنے کی کوشش کرتا ہے آن لائن سیکھتا ہے اور زندگی کے دو تین سال اس میں لگا دیتا ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے کے اسے یونیورسٹی میں جو عرصہ گزارا اس میں وہ کسی فیلڈ کا ماسٹر بن کر نکلے اور تمام یونیورسٹیوں کے پاس یہ بھی ڈیٹا ہونا چاہیے کے ملک میں کس فیلڈ میں کتنے لوگ درکار ہیں اتنے ہی لوگ اس فیلڈ میں لائے جائیں پھر یہ دیکھا جائے بیرون ممالک میں کونسے ہنر کی ڈیمانڈ بڑھ رہی ہے ؟؟ آنے والے وقت میں بچے کیسے روزگار حاصل کر سکتے ہیں یونیورسٹی کا دورانیہ چار سال کے بجائے 1.5 سال کر دینا چاہیے جس میں بچے کو بیرون ملک میں بیٹھے لوگوں سے بات کرنے کا طریقہ سکھایا جائے، کاروبار کرنا سکھایا جائے، بچے کو یہ بتایا جائے کے زندگی کا مقصد رٹہ لگانا نہیں ہے اگر تمہاری یاداشت اچھی نہیں ہے تو کوئی بات نہیں تم پھر بھی ایک کامیاب انسان بن سکتے ہو۔۔۔تمہیں انگلش فر فر نہیں آتی تو کوئی بات نہیں اتنی سیکھ لو کے اگلے کو اپنی بات سمجھا سکو اور اس کی سمجھ سکو بچے میں اعتماد پیدا کیا جائے اس بنیادی معاشرتی زندگی کے اداب سکھائے جائیں اور اس سے یہ بآور کروایا جائے کے انگلش بولنا کسی کے لائق یا قابل ہونےکی نشاندہی نہیں بلکے یہ صرف ایک زبان ہے، یونیورسٹی کے بچوں کو فیکٹریوں کے بورڈ سے ملوایا جائے اور ان سے پوچھا جائے کے وہ اپنے کاروبار میں کیسی آسانی دیکھنا چاہتے ہیں پھر بچوں سے کہا جائے کے سوچیں کیا آپ یہ کر سکتے ہیں اگر وہ اس قابل ہوں تو ان کے اخراجات فیکٹری مالکان کے زمے لگائے جائیں زرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی آپ یہ کر کے دیکھیں اس ملک کے نوجوان بہت قابل ہیں وہ آپ کو ہر مسئلے کا حل دیں گے۔ آپ ان نوجوان کو ہفتے ایک دن صرف اس بات پر ٹریننگ دیں کے لوگوں کے سامنے بات کیسے کرنی ہے حال میں سب کو جمع کر کے تقاریر کروائیں ان سے تاکہ ان کا اعتماد بحال ہو ان کے اندر کے چھپے ٹیلنٹ کو باہر نکالیں کیا پتہ جسے آپ زبردستی ڈاکٹر بنا رہے ہو وہ اچھا شاعر یا سنگر ہو ؟؟؟ پھر بچوں سے پینل بیٹھا کر ان سے انٹرویوز لیں تاکہ انہیں عملی زندگی میں گھبراہٹ نہ ہو یہاں جو لوگ نوکری کرنے آتے ہیں انٹرویو دینے سے ان کے ماتھے پر پسینہ آیا ہوتا ہے وہ اپنی بات منوانا نہیں جانتے اپنے آپ کو سستے میں بیچ آتے ان کو لوگوں سے بھاؤ کرنا سکھائیں ان کو یہ بتائیں کے نوکری آپ کی زندگی نہیں ہے وہ آپ کی زندگی کا چھوٹا سا حصہ ہو سکتی ہے پھر ان کو یہ سکھائیں کے اگر زندگی میں کامیاب ہونا ہے تو اس کا معیار پیسہ ہرگز نہیں۔
یہ ایسی چیزیں ہیں اگر ان پر ہمارے تعلیمی نظام میں عمل ہو جائے تو یقین کریں پاکستان بدل جائے گا میں لکھنا چاہوں تو ایسی ہزار چیزیں اور گنوا سکتا ہوں۔
اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو : آمین

@Nomysahir

Comments are closed.