ہم اتنے پریشاں تھے کہ حال دل سوزاں
ان کو بھی سنایا کہ جو غمخوار نہیں تھے
نام خواجہ رضی الحسن انصاری اور تخلص شوق تھا۔ 23 اپریل 1933ء کو سہارن پور میں پید اہوئے۔ جامعہ عثمانیہ سے انھوں نے بی اے کیا۔ تقسیم ہند کے بعد وہ پاکستان آگئے اور کراچی میں مستقل سکونت اختیار کی۔ یہاں آکر انھوں نے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے کیا اور ریڈیو پاکستان سے اپنی ملازمت کا آغاز کیا ۔رضی اختر شوق ایک اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ایک بہترین ڈراما نگار بھی تھے۔ عمر کے آخری دنوں میں وہ دل کی بیماری میں مبتلا ہوگئے تھے۔ اسی مرض میں 22 جنوری 1999ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔ان کے دوشعری مجموعے’’میرے موسم میرے خواب‘‘ اور ’’جست‘‘ کے نام سے چھپ گئے ہیں۔ 2005ء میں انھیں علامہ اقبال ایوارڈ سے نوازا گیا۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:276
اشعار
۔۔۔۔۔۔
ہم روح سفر ہیں ہمیں ناموں سے نہ پہچان
کل اور کسی نام سے آ جائیں گے ہم لوگ
دو بادل آپس میں ملے تھے پھر ایسی برسات ہوئی
جسم نے جسم سے سرگوشی کی روح کی روح سے بات ہوئی
مجھ کو پانا ہے تو پھر مجھ میں اتر کر دیکھو
یوں کنارے سے سمندر نہیں دیکھا جاتا
آپ ہی آپ دیے بجھتے چلے جاتے ہیں
اور آسیب دکھائی بھی نہیں دیتا ہے
ہم اتنے پریشاں تھے کہ حال دل سوزاں
ان کو بھی سنایا کہ جو غم خوار نہیں تھے
اب کیسے چراغ کیا چراغاں
جب سارا وجود جل رہا ہے
غزل
۔۔۔۔۔
یوں تو لکھنے کے لئے کیا نہیں لکھا میں نے
پھر بھی جتنا تجھے چاہا نہیں لکھا میں نے
یہ تو اک لہر میں کچھ رنگ جھلک آئے ہیں
ابھی مجھ میں ہے جو دریا نہیں لکھا میں نے
میرے ہر لفظ کی وحشت میں ہے اک عمر کا عشق
یہ کوئی کھیل تماشا نہیں لکھا میں نے
لکھنے والا میں عجب ہوں کہ اگر کوئی خیال
اپنی حیرت سے نہ نکلا نہیں لکھا میں نے
میری نظروں سے جو اک بار نہ پہنچا تجھ تک
پھر وہ مکتوب دوبارہ نہیں لکھا میں نے
میری سچائی ہر اک لفظ سے لو دیتی ہے
جیسے سب لکھتے ہیں ویسا نہیں لکھا میں نے
غزل
۔۔۔۔۔۔
کچھ لوگ سمجھنے ہی کو تیار نہیں تھے
ہم ورنہ کوئی عقدۂ دشوار نہیں تھے
صد حیف کہ دیکھا ہے تجھے دھوپ سے بے کل
افسوس کہ ہم سایۂ دیوار نہیں تھے
ہم اتنے پریشاں تھے کہ حال دل سوزاں
ان کو بھی سنایا کہ جو غم خوار نہیں تھے
سچ یہ ہے کہ اک عمر گزاری سر مقتل
ہم کون سے لمحے میں سر دار نہیں تھے
مانا کہ بہت تیز تھی رفتار حوادث
ہم بھی کوئی گرتی ہوئی دیوار نہیں تھے
یہ اس کی عنایت ہے کہ اپنا کے تمہیں شوقؔ
وہ زخم دیے جن کے سزاوار نہیں تھے
غزل
۔۔۔۔۔۔
آوارگان شوق سبھی گھر کے ہو گئے
اک ہم ہی ہیں کہ کوچۂ دلبر کے ہو گئے
پھر یوں ہوا کہ تجھ سے بچھڑنا پڑا ہمیں
پھر یوں لگا کہ شہر سمندر کے ہو گئے
کچھ دائرے تغیر دنیا کے ساتھ ساتھ
ایسے کھنچے کہ ایک ہی محور کے ہو گئے
اس شہر کی ہوا میں ہے ایسا بھی اک فسوں
جس جس کو چھو گئی سبھی پتھر کے ہو گئے
سورج ڈھلا ہی تھا کہ وہ سائے بڑھے کہ شوقؔ
کم قامتان شہر برابر کے ہو گئے