رشتہ دار نہ ہونے کےباوجود 2 افراد کی شکلیں ایک جیسی کیوں ہوتی ہیں؟
ایک دوسرے سےکوئی تعلق نہ ہونے کےباوجود 2 افراد کی شکلیں ایک جیسی کیوں ہوتی ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہےجس کا جواب سائنسدان ڈھونڈنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں تاہم اب وہ اس کا ممکنہ جواب تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
باغی ٹی وی : "سی این این” کے مطابق اسپین کے محققین نے اس سوال کا جواب جاننے کی کوشش کی اور اس کے نتائج جرنل سیل رپورٹس میں شائع ہوئے۔
چہرے کی شناخت کرنے والے سافٹ ویئر کو بھی ایک جیسے جڑواں بچوں کے علاوہ انہیں بتانے میں مشکل پیش آئی لیکن اب سائنس دانوں کا خیال ہے کہ وہ اس بات کی وضاحت کر سکتے ہیں کہ وہ کیا چیز ہے جس کی وجہ سے وہ اتنے مماثل نظر آتے ہیں اور یہ بتا سکتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک کو ڈوپل گینگر کیوں ہو سکتا ہے۔
بہت زیادہ گرم چائے یا کافی پینے سےغذائی نالی کے کینسر کا تقریباً تین گناہ خطرہ بڑھ…
ایک نئی تحقیق کےمطابق، جو لوگ ایک دوسرے سےمشابہت رکھتےہیں، لیکن ان کا براہ راست تعلق نہیں ہےتب بھی ان میں جینیاتی مماثلت پائی جاتی ہے تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ رشتے دار نہ ہونے کے باوجود جن افراد کی شکلیں ایک دوسرےسے ملتی ہیں وہ حیران کن طور پر جینیاتی طور پربھی ایک جیسے ہوتے ہیں ایسی جینیاتی مماثلت رکھنےوالےافراد کا وزن، طرز زندگی اورعادات بھی ایک جیسی ہوسکتی ہیں، جس سے عندیہ ملتا ہے کہ جینز بھی ہماری شکل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
سائنس دانوں نے طویل عرصے سے سوچا ہے کہ یہ کیا چیز ہے جو کسی شخص کے ڈوپل گینگر کو تخلیق کرتی ہے۔ یہ فطرت ہے یا پرورش؟
اسپین کے شہربارسلونا میں جوزپ کیریرس لیوکیمیا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے محقق ڈاکٹر مینیل ایسٹیلر نے کہا کہ وہ ماضی میں جڑواں بچوں پر تحقیقی کام کرتے رہے ہیں اوراسی وجہ سے انہیں ایسےافراد میں دلچسپی تھی جو ہم شکل توہوتے ہیں مگرآپس میں رشتے دار نہیں ہوتے اس مقصد کے لیے انہوں نے 32 ہم شکل افراد کی خدمات حاصل کیں اور ایک فوٹو پراجیکٹ شروع کیا۔
محققین نے ان افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ کرائے، زندگی کے بارے میں سوالنامے بھروائے اور چہرے شناخت کرنے والے 3 مختلف پروگرامز کا استعمال بھی کیا۔
ذیابیطس سے بینائی سے محروم ہونیوالوں کیلئے کم لاگت والا نیا لیزر علاج دریافت
نتائج میں دریافت ہوا کہ 16 ہم شکل جوڑوں کا اسکور ہم شکل جڑواں بہن بھائیوں جیسا تھا، یعنی کمپیوٹر سسٹم ان کے چہرے درست شناخت نہیں کرسکا جبکہ ہم شکل افراد کے باقی 16 جوڑے انسانی آنکھ کے لیے تو ایک جیسے تھے مگر کمپیوٹر الگورتھم نے انہیں شناخت کرلیا۔
اس کے بعد ڈی این اے کی گہرائی میں جاکر جانچ پڑتال کی گئی تو معلوم ہوا کہ جن افراد کو کمپیوٹر سسٹم پہچان نہیں سکا، ان کے جینز دیگر کے مقابلے میں ایک دوسرے سے بہت زیادہ ملتے جلتے تھے۔
محققین نے بتایا کہ ایسے ہم شکل افراد جینیاتی طور پر بھی ایک دوسرے سے بہت زیادہ مماثلت رکھتے تھے، یہی جینز ناک، آنکھوں، منہ، ہونٹوں اور ہڈیوں کی ساخت پر بھی اثرانداز ہوئے البتہ ان افراد کی زیادہ گہرائی میں جاکر جانچ پڑتال سے معلوم ہوا کہ کچھ حد تک وہ ایک دوسرے سے مختلف بھی تھے۔
ماحول اور رویے کسی فرد کے جینز کے افعال میں بھی تبدیلیاں لاتے ہیں اور یہی ان میں بنیادی فرق تھا تحقیق کے نتائج سے چہرے کو شناخت کرنے والے سافٹ وئیر کے محدود ہونے کا عندیہ بھی ملتا ہے۔