ہم نہیں مانتے : طیارہ حادثہ میں جاں بحق افراد کے لواحقین نے اے اے آئی بی کی ابتدائی رپورٹ مسترد کردی

کراچی:ہم نہیں مانتے : طیارہ حادثہ میں جاں بحق افراد کے لواحقین نے اے اے آئی بی کی ابتدائی رپورٹ مسترد کردی،اطلاعات کے مطابق 22 مئی کو پی آئی اے کی پرواز پی کے 8303 کو پیش آنے والے سانحے میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے مسافروں کے غمزدہ رشتہ داروں نے ایئر حادثات کی تفتیشی برانچ (اے اے آئی بی) کی جانب سے جاری حادثے کی ابتدائی رپورٹ کو مسترد کردیا۔

ذرائع کے مطابق کراچی پریس کلب میں ایک باپ جس نے اپنے تین بچوں اور بیوی کو کھو دیا تھا، ایسی بہنیں جنہوں نے روشن مستقبل کا خواب رکھنے والے اپنے اکلوتے 27 سالہ بھائی کو کھویا، اپنے والد کے اصل باقیات کو تلاش کرنے والا بیٹا، ایک بیوہ عورت ایئربلیو فلائٹ 202 کو پیش آنے والے حادثے کے 10 سال بعد بھی حقائق کی منتظر ہے، نے پریس کانفرنس کی۔

طیارہ حادثہ میں جاں بحق افراد کے لواحقین نے اے اے آئی بی کی ابتدائی رپورٹ کو مسترد کیا اور کہا کہ یہ کاک پٹ وائس ریکارڈر اور فلائٹ ڈیٹا ریکارڈرز کی متعدد ریکارڈنگز کے علاوہ کچھ نہیں۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ ڈیٹا کا مزید جائزہ لیا جائے اور بین الاقوامی سول ایوی ایشن آرگنائزیشن کے جاری کردہ ایئر کرافٹ ایکسیڈنٹ اینڈ انسیڈنٹ انویسٹی گیشن پروسیجر کے تحت مکمل رپورٹ رپورٹ جاری کی جائے۔

اس حادثے میں اپنی اہلیہ اور تین بچوں کو کھونے والے آصف اقبال فاروقی کا کہنا تھا کہ لوگ ان کی حالت زار اور ان جیسے دوسرے لوگوں کی حالت زار کا تصور کریں جنہیں اپنے پیاروں کی باقیات تک نہیں دی جارہی انہیں جھوٹا کہہ کر دفتر سے باہر نکال دیا جارہا ہے، ان کی فریاد اور ان جیسے دیگر افراد کی فریاد کو سنا تک نہیں جارہا۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ دانتوں کا ریکارڈ نہیں بلکہ صرف ڈی این اے مکمل تر پر جھلسی ہوئی لاشوں کی شناخت کا واحد حل ہے جیسا بدقسمت پی کے 8303 حادثے کے شکار افراد کی لاشوں کے ساتھ تھا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ صرف ایک ایئر لائن ہی نہیں بلکہ ایک پورا نظام ہے، اس معاملے میں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز، پائلٹ، سول ایوی ایشن اتھارٹی اور ورکر یونینز جو جہاز کے فضا میں جانے سے قبل طیارے کے ہر ایک حصے کی جانچ کے ذمہ دار ہیں، ’ان سب میں ایک بڑی تنظیم نو کی ضرورت ہے‘۔

کنول ارسلان، جس نے حادثے میں اپنے اکلوتے بھائی کو کھو دیا تھا، نے ایئر لائن کے معیاری آپریٹنگ طریقہ کار پر سوال اٹھایا۔ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ایئر ٹریفک کنٹرول [اے ٹی سی] کا عملہ تھا جب فلائٹ اترنے والی تھی تو نماز کے وقفے پر تھا تو ان کے متبادل کہاں تھے؟ یہ کسی ایک شخص کی تو ذمہ داری نہیں ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ جب پائلٹ جہاز کو دوبارہ فضا میں لے جا رہا تھا تو اس کے انجنز میں آگ لگنے کے بارے میں ایئر ٹریفک کنٹرول کو کیوں اطلاع نہیں ملی؟ ہوائی جہاز کے رن وے پر آگ بجھانے والے فون کیوں نہیں تھے؟ جب انہیں معلوم ہوا طیارے کو کچھ مسئلہ ہے تو اس پر انہوں نے کوئی ہنگامی کارروائی کیوں نہیں کی؟۔

ان کا کہنا تھا کہ حادثے سے قبل ان 17 منٹ کی ناکام لینڈنگ میں ان مسافروں پر کیا بیتی یہ صرف اللہ ہی جانتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس بارے میں بھی سوچیے کہ ہم جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والوں کے لواحقین پر اب کیا گزر رہی ہے۔

انہوں نے یہ بھی سوال کیا کہ ایئر پورٹ کے آس پاس کی عمارتیں تین سے چار منزلہ اونچی کیسے ہوئیں؟ ’سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے اس کی اجازت کیوں دی؟‘2010 کے ایئربلیو حادثے کے متاثرہ جنید حامد، جنہوں نے ایئربلیو حادثے کے متاثرین کی ایسوسی ایشن تشکیل دی ہے، نے کہا کہ گزشتہ حادثات کے بارے میں پاکستان میں ابتدائی رپورٹ پیش کیے جانے کے بعد سے کبھی بھی کوئی تفصیلی رپورٹ سامنے نہیں آسکی ہے اور اس ابتدائی رپورٹ کو بھی عوامی دباؤ یا عدالت کے احکامات کی وجہ سے جاری کیا گیا ہے۔

پریس کانفرنس میں متاثرہ افراد کے اہل خانہ کو معاوضہ دیے جانے کا مسئلہ بھی اٹھایا گیا جس کے بارے میں جنید حامد کا کہنا تھا کہ ’ابتدائی طور پر 10 لاکھ روپے وفاقی حکومت نے دیے ہیں مگر 50 لاکھ روپے ادا کرنا ان کی ذمہ داری ہے‘۔

Comments are closed.