کراچی رجسٹری میں 2 سال چار ماہ بعد کراچی تجاوزات کیس، رپورٹ عدالت میں جمع کرادی گئی

عدالت نے حکم دیا کہ متاثرین کی فہرست میں رہ جانے والے نام ایک ماہ میں کمشنر کے فوکل پرسن سے رجوع کریں

کراچی: سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں 2 سال چار ماہ بعد کراچی تجاوزات کیس،کے ڈی اے نے بوٹ بیسن پر تعمیر عمارت سے متعلق رپورٹ عدالت میں جمع کرا دی، ڈائریکٹر لینڈ منیجمنٹ کی جانب سے رپورٹ عدالت جمع کرائی گئی ہے۔

باغی ٹی وی :سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں دو سال چار ماہ بعد آج کراچی تجاوزات کیس کی سماعت ہوئی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کیس کی سماعت کی ،سپریم کورٹ نے شہر بھر سے تجاوزات کے خاتمے کی رپورٹ طلب کی تھی، جو سیکریٹری، میئر کراچی، ڈی جی کے ڈی اے اور ایس بی سی اے حکام نے آج عدالت میں پیش کی۔

رپورٹ کے مطابق پلاٹ نمبر کوم تھری بلاک 6 اسکیم 5 کبھی رفاہی پلاٹ نہیں تھا، پلاٹ نمبر کوم تھری شروع سے کمرشل پلاٹ تھا،کوم تھری کا سائٹ پلان بھی جاری کیا جا چکا ہے، عمارت پارک کی جگہ پر نہیں نا ہی انکروچمنٹ کی گئی ہے، کوم تھری کمرشل پلاٹ ہے،عدالت نے کیس میں متعلقہ حکام سے شہر میں رفاہی پلاٹوں اور تجاوزات کے خاتمے سے متعلق رپورٹ طلب کر رکھی تھی-

سابق چیف جسٹس گلزار احمد نے تمام رفاہی پلاٹوں، پارکس اور فٹ پاتھوں سے قبضہ ختم کرانے کا حکم دیا تھا سپریم کورٹ نے تجاوزات ختم کرنے اور کراچی سرکلر ریلوے بھی بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں شہر میں غیر قانونی تجاوزات کے معاملے پر سماعت شروع ہوئی تو کمرہ عدالت وکلا اور درخواست گزاروں سے بھر گیا جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا لوگ باہر نہیں جا سکتے؟ عدالت میں شور پر چیف جسٹس برہم بھی ہوگئے اور کہا کہ کون بات کر رہا ہے؟ جو بات کر رہا ہے باہر جائے۔

سماعت کا آغاز کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ایڈوکیٹ جنرل سندھ کو کیس کے بارے میں بریفنگ دینے کا کہا، جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ اس کیس سے جڑے بہت سے فیصلوں پر عملدرآمد ہو گئے ہیں، گجر نالہ سمیت تین نالوں پر سے تجاوزات ختم ہو گئی ہیں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ درخواست گزار کی نمائندگی کون کر رہا ہے؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ اس درخواست کو ازخود نوٹس میں تبدیل کر دیا گیا تھا، چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ہم کہاں سے شروع کریں؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ آخری فیصلوں سے شروع کرتے ہیں۔

اس کے بعد عدالت میں نالہ متاثرین کا سابقہ فیصلہ پڑھ کر سنایا گیا، ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ تخمینے کے لئے پاکستان انجینئرنگ کونسل کو بھیجا گیا تھاجس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کب بھیجا؟ اور مزید کہا کہ پاکستان انجینئرنگ کونسل سے اتنا سا کام نہیں ہو رہا۔

متاثرین کے وکیل نے کہا کہ 4.2 ملین روپے نالہ متاثرین کو دیے جائیں۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پیسے کس نے دینے ہیں؟ جواباً وکیل نے کہا کہ ’سندھ حکومت نے دینے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ ’سندھ حکومت نے نہیں عوام نے دینے ہیں‘۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کتنے نالہ متاثرین ہیں؟ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ 6 ہزار سے زائد نالہ متاثرین ہیں، چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا نالے پر تعمیرات قانونی تھیں؟ایڈووکیٹ جنرل سندھ بولےغیر قانونی تعمیرات تھیں، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ انہیں پلاٹ تو دے دیں جس پر ایڈووکیٹ جنرل بولے کہ ہم تو دینے کے لئے تیار ہیں، اس دوران عدالت نے سماعت میں مداخلت پر ایک درخواست گزار کو جھاڑ دیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہاں کسی کو تقریر کی اجازت نہیں، تقریر نہ کریں اپنی استدعا بتائیں، درخواست گزار نے کہا کہ گھر گرا دیا گیا لیکن متاثرین کی لسٹ میں میرا نام نہیں، ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ جن کے نام متاثرین کی فہرست میں نہیں ان کے لئے ایک ضابطہ موجود ہے، کمشنر کا فوکل پرسن ان معاملات کو ڈیل کرتا ہے، یہ فوکل پرسن اے ڈی سی 2 کمشنر کراچی کے دفتر میں موجود ہوتا ہے۔

عدالت نے حکم دیا کہ متاثرین کی فہرست میں رہ جانے والے نام ایک ماہ میں کمشنر کے فوکل پرسن سے رجوع کریں، چیف جسٹس نے اس کے بعد ایڈووکیٹ جنرل کو کہا کہ جو پلاٹ لینا چاہتے ہیں ان کو پلاٹ دے دیں۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ 6932 مجموعی نالہ متاثرین ہیں، یہ اربوں میں پیسے ہیں، چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اتنے پیسے ہیں آپ کے پاس؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل بولے کہ پہلے نہیں تھے اب بحریہ ٹاؤن کے آرڈر کے بعد ہیں۔

قبل ازیں میئر کراچی بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے شہر میں ٹریفک کی روانی بہتر کرنے کے لیے ہفتہ وار انسداد تجاوزات آپریشن کرنے کا اعلان کیا تھا آپریشن کا آغاز صدر، لائٹ ہاؤس، ایم اے جناح روڈ اور بولٹن مارکیٹ سے ہوگا، آئی آئی چند ریگر روڈ، نمائش، ایمپریس مارکیٹ اور کھارادر میں بھی آپریشن ہوگا، سڑکوں سے کیبن، ٹھیلے، پتھارے اور دکانوں کے باہر سامان ہٹایا جائے گا۔

Comments are closed.