امریکی بحریہ کی جانب سے ڈولفنز پر لگائے گئے کیمروں کے نتیجے میں متعدد راز سامنے آئے ہیں۔
باغی ٹی وی : امریکی بحریہ کی جانب سے زیرِ سمندر بارودی سرنگوں کی نشاندہی اور امریکی جوہری ذخیرے کی حفاظت کے لیے ڈولفنز کو باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے اور پھر اِن انسان دوست مچھلیوں کو کھلے سمندر، سان ڈیاگو بے میں چھوڑ دیا جاتا ہےڈولفن کا مطالعہ کیا جا رہا ہے کیونکہ محققین شکار کے دوران ان کے مواصلاتی طریقوں کے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہیں۔
اِن ڈولفنز کی نقل و حرکت اور تہہ کے اندر کےراز جاننےکےلیے اِن پر باقاعدہ کیمرے لگا کر چھوڑا جاتا ہے ریکارڈنگ کا سامان ان ڈولفنز کی پیٹھ پر ایسے نصب کیا جاتا ہے کہ ناصرف سمندری تہہ نظر آ سکےبلکہ اِن مچھلیوں کے چہروں کے تاثرات بھی ریکارڈ کیے جا سکیں۔
محققین کی ایک ٹیم نے امریکی بحریہ کی ڈولفنز کےساتھ کیمرے منسلک کیےاورسمندری مخلوق کی مچھلیوں کاپیچھا کرتے ہوئے، سمندری سانپوں کو کھا جانے اور یہاں تک کہ ‘سائیڈ آئی’ کی شکل دینے کی شاذ و نادر ہی دیکھی جانے والی فوٹیج حاصل کی۔
ڈولفن مچھلیاں خونخوار نہیں ہوتیں اور نہ ہی جنگلی حیات کی طرح شکارکرتی ہیں جبکہ اِن مچھلیوں پر نصب کیےگئے کیمروں سے حاصل ہونے والی نئی ویڈیوز میں ڈولفنز کو زہریلے سانپوں کا شکار کرتے ہوئےبھی دیکھا گیا ہےایک ڈولفن نےآٹھ انتہائی زہریلے، پیلے پیٹ والے سمندری سانپ (Hydrophis platurus) کھائے۔
ویڈیو میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ڈولفن 200 سے زائد مچھلیوں کی اقسام کا شکار کرتی ہے جبکہ خود کو بدبودار شکار سے بچانے کے لیے پانی سے باہر چھلانگ بھی لگا دیتی ہے، یہ سمندر کی سطح پر الٹا بھی تیرتی ہیں تاکہ اپنی آنکھوں سے سمندر کے اندر کا واضح نظارہ دیکھ سکیں۔
ڈولفن ایک دوسرے کو بلانے اور ڈھونڈنے کے لیے اپنے بینائی اور آواز دونوں کا استعمال کرتی ہیں اِن ویڈیوز سے ڈولفن کے شکار کرنے اور اِنہیں کھانے کی عادات سے متعلق بھی انکشافات سامنے ہیں ڈولفنز اپنے شکار کو براہِ راست نگلنے کے بجائے پہلے اِنہیں اپنے منہ کے ایک طرف رکھ کر خوب چوستی ہیں اور پھر اپنے طاقتور گلے کے پٹھوں کی مدد سے اِنہیں نگل لیتی ہیں۔