رشتوں کو بچائیں مگر کیسے
تحریر:- سعدیہ بنت خورشید احمد

خاندانی نظام معاشرے کی بہت اہم اکائی ہے مختلف افراد سے مل کے ایک خاندان بنتا ہے۔ اس خاندان کو قائم رکھنے کے لئے ایثار ، قربانی، محبت و مودّت، سمجھوتہ وغیرھم کرنے کی سخت ترین ضرورت ہوتی ہے اس لئے کہ ہر فرد کی سوچ مختلف ہوتی ہے۔ جب سوچ مختلف ہو تو مسائل بھی مزید بڑھتے ھیں۔
ہمارے روایتی معاشرے میں خاندانی نظام کو بہت اہمیت حاصل ہے۔

اس کی اس سے بھی زیادہ اہمیت قرآن و حدیث میں واضح کردی گئی ہےنبی علیہ الصلوۃ والسلام کی حیات طیبہ ھمارے لئے ایک رول ماڈل کی حیثیت سے موجود ہے بیویوں کے حقوق الگ، والدین کے الگ، شوہر کے الگ اولاد کے الگ حقوق متعین فرمائےاور ان کو اپنی عملی زندگی میں لاگو کرکے دکھایا مزید اس کی تائید یوں فرمائی کہ جو ھمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کا ادب نہ کرے وہ ھم میں سے نہیں۔

اس حدیث پر غور و خوض کیا جائے تو یہ بہت وسیع معنی رکھتی ہے جس میں پورا کا پورا خاندان سما جاتا ہےاسلام خاندان کا ایک وسیع تصور رکھتا ہے جس میں ماں باپ بیٹے بیٹیاں، دادا دادی۔ چچا تایا وغیرہ سب شمار ہوتے ھیں لیکن شریعت نے سب کی حدود بھی متعین فرمائیں کہ کوئی کسی دوسرے کی ذاتیات یا حقوق کو پامال نہ کرے۔

ھمارے معاشرے میں خاندان تو بہرحال موجود ھیں لیکن بدقسمتی سے ہم یورپ کی رنگینیوں سے مرعوب ہو کر جدیدیت کا شکار ہو گئےھم اپنی تمام روایات کی پاسداری بھی کرنا چاہتے ھیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ماڈرن ازم بھی ھمارے اندر موجود ہے جو کہ بالکل ہی متضاد نظام ھیں یعنی ھم روایتی معاشرے کے مطابق رشتوں ناتوں کو بھی بچانا چاہتے ہیں اور یورپ کی طرح ایک خاص لائف اسٹائل کو بھی اپنانا چاہتے ھیں۔

یورپ نے تو خاندانی نظام کو بالکل ختم ہی کردیا اس لئے جو شخص کماتا ہے وہ ساری کمائی اپنے آپ پر ہی خرچ کرتا ہے اس لئے ان کے لائف اسٹائلز ھمارے سامنے اپنی مثال آپ ھیں جبکہ ھمارے ہاں جہاں خاندانی نظام رائج ہےایک شخص کمانے والا ہوتا ہے جبکہ باقی سب افراد کھانے والے، تو وہاں ایسے شاہانہ لائف اسٹائل کا سوچنا ہی بے کار ہے۔

مزید برآں یہ کہ ایک شخص شادی سے پہلے اپنی تمام کمائی اپنی ماں کے حوالے کرتا ہے اور اس کی توجہ کا مرکز اس کی ماں اور بہن ہی ہوتی ہے جبکہ شادی کے بعد یہ نظام دو حصوں میں منقسم ہو جاتا ہے اور بچوں کی پیدائش کے بعد معاملات مزید بڑھ جاتے ھیں جس میں اخراجات بڑھ جاتے ھیں اور سب کو وقت دینا مشکل ہو جاتا ہے-

یہ تقسیم عموماً ایک ماں کی برداشت سے باہر ہوتی ہے۔ جس سے مسائل مزید بڑھتے ھیں اور ساس بہو اور نندوں کے درمیان معمولی سے معمولی بات پہ لڑائی ہوتی چلی جاتی ہے جب ایک عورت کی خواہشات پوری نہیں ہو پاتیں تو حقوق نسواں کا نعرہ بلند ہونے لگتا ہے جو کہ مغرب نے عورت کے دماغ میں فتور ڈالا ہوا ہے۔

عورت مرد کو اپنا حریف سمجھتی ہے ھماری عورت اس مغرب زدہ نعرے کو سمجھ ہی نہ سکی جو معاشرے کو بگاڑنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے مغرب نے اپنے اہداف کو پورا کرنے کے لئے مسلمانوں کے مضبوط ترین خاندانوں کو نشانہ بنایا -اور بالآخر ھمارے خاندان اب کمزور ہو چکے ھیں مسئلہ سمجھنے کا یہ ہے کہ جدید دور میاں بیوی کو لڑانا چاہتا ہے-

عورت کی خواہشات زیادہ، آمدنی کم ہوتی ہے جس سے ایک عورت اپنی زندگی کا دائرہ تنگ ہوتا ہوا محسوس کرتی ہے جس کے پیش نظر وہ مادیت پرستی کی اس خواہش کو لے کر گھر سے باہر نکلتی ہے قطع نظر اس سے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت متاثر ہوگی ھم باہر بہت کم وقت گزارتے ہیں جس سے سے لوگوں کے رہن سہن کا ٹھیک سے اندازہ کرنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔

باہر نکلتے ہوئے مرد اور عورت سب ہی اچھا خاصا تیار ہوتے ھیں اور بول چال بھی اکثر خوبصورت ہوتا ہے جس کو دیکھ کے ھم بہت جلد مرعوب ہو جاتے ھیں یہی چیز ہمارے گھر کے ماحول کو خراب کرنے کی ایک اھم وجہ بنتی ہے کہ ہمیں باہر کے ماحول کو دیکھ کے گھر کے ماحول میں خامیاں نظر آنے لگتی ھیں۔

عملی زندگی باہر کی دنیا سے یکسر مختلف ہے جس میں بہت کچھ دیکھنا سننا برداشت کرنا پڑتا ہے لیکن افسوس کہ ھمارے اندر قوت برداشت بہت کم ہو چکی ہے جس کی وجہ سے خاندان جڑنے سے پہلے ہی ٹوٹ جاتے ھیں دوسروں کے طرز زندگی سے مرعوب ہو کر اورباہر کے لوگوں کی نظر آنے والی خوبیوں سے متاثر ہو کر جب ھم اپنے گھریلو نظم کی کسی تیسرے شکایت کرتے ھیں تو تیسرا فریق اس مسئلہ کو مزید ابھار کے بگاڑنے کی کوشش کرتا ہے۔

اگر کہیں کسی نے غلطی سے کچھ برداشت کر لیا تو تیسرے شخص کو یہ بات برداشت نہیں ہوتی اور اکثر ایسا کہا جاتا ہے کہ تمہارا فوری دو کی بجائے چار سنانا بنتا تھا تاکہ آئندہ مزید کچھ کہنے کی ہمت نہ ہو جو بات گھر کی چار دیواری میں خوش اسلوبی سے منظم طریقے سے حل کی جا سکتی تھی وہ کورٹ کچہریوں کی زینت بن جاتی ہے۔ گلیوں کوچوں کا ایک خاص موضوع بننے کے بعد گھر کی عزت کو داغ دار کرنے کا سبب بنتی ہے جس کے باعث جو مرد بہادری کے طور پہ معروف ہوتے ھیں، کسی کو منہ دکھانے سے کنی کتراتے ھیں ۔

یوں معاملات سلجھنے کی بجائے مزید الجھتے چلے جاتے ھیں یوں جدید دور میاں بیوی کو لڑوا کر باہر کے لوگوں سے جوڑنا چاہتا ہے ھماری اصل یہ ہے کہ ہم تضاد کا شکار ہوگئے ھیں ان مسائل کا واحد حل صرف اور صرف سمجھوتہ ہے ماں ہے تو اسے یہ سمجھنا چاہیے کہ مزید ذمہ داریوں اور وقت کی قلت کے پیش نظر اگر توجہ کم دی جا رہی ہے تو اس کو زیادہ مسئلہ نہ بنایا جائے کیونکہ بیوی بچوں کے حقوق بھی بہرحال مسلّم ھیں-

ایک بیوی کو غور کرنا چاہیے کہ افراد زیادہ ھیں کمانے والا ایک ہے تو اخراجات کی فہرست کم رکھےمعاملہ جس بھی طرف ہو، سمجھوتہ مرد اور عورت دونوں کی اشد ترین ضرورت ہے جس کی وجہ سے ہم اپنے خوبصورت خاندانی نظام کو قائم رکھ سکتے ھیں اور رشتوں کو بچا سکتے ھیں کیونکہ زندگی اک جہد مسلسل ہے، سفر مسلسل ہے ۔ یہاں ھمیشہ نہیں رہنا ماسوائے جتنا وقت ہمارے لئے لکھ دیا گیا اس کو گزارنا ہے فقط۔ یوں نہیں تو یوں صحیح گزر ہی جائے گی

Shares: