رشتوں میں کشش اور محبّت پیدا کیجیے…!!!
(بقلم :جویریہ بتول).
انسان پیدا ہوتے ہی کئی طرح کے خوب صورت بندھنوں میں بندھا ہوتا ہے…
یہ رشتے سفرِ زندگی کا سہارا،حُسن،اور دنیا میں دل لگی کا ایک ذریعہ ہوتے ہیں…
رشتوں کی کمی کا شکار لوگ تنہا،پریشان اور دباؤ کا شکار رہتے ہیں…انسان کو کئی طرح کی ضروریات اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان سے نمٹنے کے لیے ہی اللّٰہ تعالٰی نے یہ حسیں رشتے پیدا فرمائے ہیں…
ہم لوگ اکثر مصروفیات اور تیز ترین دور کے سحر میں مبتلا ہو کر اپنے سے جڑے رشتوں کی قدر سے تہی دست ہوتے جا رہے ہیں…
ہم رشتوں کا دوسرے لوگوں کے رشتوں سے موازنہ کرتے کرتے ہی زندگیاں گزار دیتے ہیں کہ فلاں کا خاندان تو ایسا ہے،ویسا ہے،اور یہی چیز رفتہ رفتہ رشتوں میں دوریوں،تنہائیوں اور احساسِ کمتری کو ہوا دیتی اور اختلافات کو جنم دیتی ہے…
رشتوں کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے،انہیں تکلفات سے پاک کرنا چاہیے…اور ہمدردی و خیر خواہی کی چاشنی سے آراستہ کرنا چاہیے…
عزت،احساس اور چھوٹے بڑے کے مقام کا خیال کیا جانا چاہیے یہ رشتے تبھی مضبوط اور اٹوٹ انگ ثابت ہوتے ہیں…
ماں،باپ،بہن بھائیوں،بیوی بچوں کے ساتھ خوشگوار انداز میں کُچھ وقت گزارنا ہمیں انرجی فراہم کرتا،دل نرم کرتا اور زندگی کے بہت سے آداب سے شناسائی کا ذریعہ ہے…
اس میں محبّت کی باتیں ہونی چاہئیں،ایک دوسرے کے کاموں کی تائید و تعریف ہو…
تنقید برائے اصلاح ہو…
اچھے کاموں کی ترغیب ہو…
غلط اور منفی کاموں سے روکنا ہو…
اپنے اپنے تجربات اور مشاہدات سے ایک دوسرے کو آگاہ کیا جائے…
یہ ہر ایک کا ایک دوسرے پر حق ہے چاہے وہ اولاد و والدین ہوں،زوجین ہوں یا دیگر رشتہ دار…
مل کر کھانا کھانا،کسی وقت سب کا اکھٹے ہونا،خوش گپیاں کرنا،ہلکا پھلکا مزاح یہ ساری چیزیں ہمارے خون کو جلنے کی بجائے اچھی گردش کی راہ فراہم کرتی ہیں…
اسی طرح ہمیشہ مثبت اور اُمید افزا گفتگو کرنی چاہیے،معاشی،سماجی حالات کیسے ہی تلخ اور کڑے ہوں لیکن ہمارا مقصد ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھانا رہے،گرانا نہیں…
سائنسی تحقیق کے مطابق مایوس اور علیحدگی اختیار کرنے والے دوستوں کے ساتھ بیٹھنا آپ کو بھی ویسی ہی عادات و کردار کا عادی بنا سکتا ہے یعنی وہ باتیں آپ کے قلوب و اذہان پر ویسا ہی اثر کرنے لگتی ہیں اور رشتوں کے بارے میں منفیت کو فروغ کا باعث بنتی ہیں یہی وجہ ہے کہ مومنوں کو دوسروں کے درمیان بھی صلح کروانے،ملنے ملانے اور ایک دوسرے کی اذیتوں پر صبر کرنے کی تاکید اور جزا کی نوید دی گئی ہے…
یہ صلح کسی بھی رشتے کے درمیان کروائی جا سکتی ہے…!!!
دوستوں کے ذہنوں میں رشتوں کے بارے میں پائے جانے والے اشکالات کو بہتر طریقے سے دور کیا جائے اُنہیں رشتوں کی اہمیت سمجھائی جائے…
ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہمارے سارے رشتے یہاں تک کہ ایک گھر کے افراد کی طبیعتوں میں بھی تنوع پایا جاتا ہے اگرچہ سوچ و فکر بھی ایک سی ہو…یوں ہم سب کو ایک ہی آئینہ میں نہیں اُتار سکتے اور اپنے انداز کو اختیار کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے…بلکہ انہیں ڈیل کرنے کا فن سیکھ کر خوشگوار تبدیلی کا باعث بن سکتے ہیں…!
آج کل ایک فیشن یہ بھی ہے کہ ڈیجیٹل دور میں داخل ہو کر ہم نے رشتے بھی ڈیجیٹل آلات پر منتقل کر دیے ہیں…
ذرا سی بات بھی ہو تو دوسرے کمرے تک اُٹھ کر جانے کے لیے کوئی تیار نہیں ہوتا اور میسیجنگ پر بات چیت جاری رہتی ہے…
مانا کہ کسی مجبوری کی صورت میں تو یہ چیز ٹھیک ہے لیکن دو قدم چل کر کسی رشتے کے پاس جا کر بیٹھنا،سامنا و زیارت کرنا،مسئلہ دریافت کرنا،حل سوچنا اس ٹائپنگ سے زیادہ مثبت اور قربت کا ذریعہ ہے…
کیا ہم اپنے لیے یہ ماحول تخلیق کرنا چاہ رہے ہیں کہ آہستہ آہستہ ہم زبان سے چہکتے لفظوں کو بکھیرنے،دل کے بوجھ ہلکے کرنے،وقت دینے،پاس بیٹھنے اور بات کرنے کے بھی روادار نہ رہیں گے…؟
یہ چیزیں ہماری نفسیات پر بھی انتہائی منفی اثرات مرتب کرتی ہیں…احساس کی دولت آہستہ آہستہ ختم ہونے لگتی ہے،خود غرضی جنم لیتی ہے اور انسان لمیٹڈ ہو کر صرف اپنے مفاد اور خول میں بند سا ہو کر رہنے لگتا ہے…
صرف اپنے محدود سے مقاصد کے لیے جینے لگتا ہے…اس برق رفتاری نے ہم سے ہماری زندگی کے اصل مقصد،چستی،احساس،اور رشتوں کی اہمیت کو چھین لیا ہے…ہم انسان ہیں صرف روبوٹ نہیں کہ مشینی انداز میں کام اور بس…
ہمارا مقصدِ تخلیق عبادت و بندگی رکھا گیا ہے اور یہ سفر جہدِ مسلسل،زمینی حقائق،قربانیوں اور اذیتوں کا سامنا کیے بغیر طے ہونا ممکن نہیں…دل کی دھڑکنوں اور گردش کرتے خون کا یہی تقاضا ہے اور ہمیں بیٹھے بیٹھے صرف فارورڈ کی رِیت سے نیکی کمانے کے ساتھ ساتھ باہر نکل کر دن کی روشنی کا بھی مشاہدہ،رشتوں کے لیے عملی موجودگی و کردار بھی اَدا کرنا ہے…
یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہی رشتوں میں مضبوطی،پیار اور اپنائیت کا جذبہ زندہ رکھتی ہیں اور یہی چھوٹی چھوٹی کوتاہیاں شکوے،دوریوں،غلط فہمیوں اور اجنبیت کا باعث بن جاتی ہیں…
زیادہ دور تک نہیں بلکہ ایک گھر کے اندر والدین و اولاد اور میاں بیوی کے درمیان تک بھی…!!!
رشتوں کے درمیان جہاں احترام کا خیال رہے وہیں رویہ ہمیشہ دوستانہ رکھیں،کھل کر بات چیت کریں اور موقع دیں،تنازعات کو مکمل سمجھ کر سمجھداری سے ہی حل کرنے کی کوشش کریں…اعتماد کا فقدان نہ ہونے دیجیے…اختلافات کی صورت میں فائٹنگ اسٹائل گھٹیا ہر گز نہ ہو،یعنی ایسی باتیں یا نازیبا گفتگو جو دل و دماغ میں پیوست ہو کر دیر تک تلخی اور کشیدگی کا باعث بنی رہے…بلکہ بہترین انداز میں مجادلہ کا ہنر آنا چاہیے…جو باعثِ اصلاح،غلطی کے خاتمہ اور رشتوں کی خوب صورتی برقرار رہنے کا باعث رہے…!!!
Shares: