یونیورسٹی گیا تو مجھے رشوت کی اس نئی قسم کا پتا چلا، سکالرشپ ان بچوں کو ملتی ہے جن کے والدین فوت ہو گئے ہوں یا پھر جن کی آمدن بیس ہزار سے کم ہو۔ مگر یہ سکالرشپ لگوانے سے لیکر چیک پاس کروانے تک آپ کو مختلف آفسز میں رشوت دینا پڑتی ہے۔ اور وہ فخر سے لیتے ہیں۔ یہ واقعہ ایک دوست کیساتھ پیش آیا۔
اسی طرح زندگی میں پہلی بار ہسپتال انیس سال کی عمر میں گیا۔ وہاں یہ پتا چلا کہ مریض کے ہوش میں آنے کے بعد نرس کو رشوت دینا رشوت دینا نہیں نرس کو سپورٹ کرنا کہلواتا ہے۔ اور یہ ضروری ہے ورنہ اس بات کا کسی کو علم نہیں کہ نرس کب کونسا سوئچ آف کرکے آپ کے مریض کی علالت لمبی کر دے۔ لیکن ہم نے نرس کو ایک پیسہ بھی نا دیا اور اسی شام کو واپس آگئے۔
ڈاکٹرز نے رشوت لینے کا دوسرا طریقہ یہ بھی ڈھونڈا ہے کہ یہ سرکاری ہسپتالوں میں آنے والے مریضوں کو جانور سے برا ٹریٹ کرتے ہیں مگر وہیں اگر یہ مریض ان کے نجی کلینک یا ہسپتال میں دو ہزار کی پرچی لیکر آئے تو یہ اس کو اپنا والد محترم بھی تسلیم کر لیتے ہیں۔
ایک جاننے والے جو کہ "ادارے” کے تھے وہ نہروں کو کشادہ کرنے اور پل بنانے وغیرہ جیسے امور کی انسپیکشن پہ مامور تھے وہ ٹھیکیدار سے انسپیکشن پاس کرنے کا ایک بریف کیس لیتے تھے اب چاہے نہر بیس فٹ گہری کی بجائے دس فٹ گہری کرکے آبادی سیلاب میں ڈوب جائے ان کو پرواہ نہیں تھی کیونکہ وہ ہر مہینے نئی فارچنر افورڈ کر سکتے تھے۔
پولیس والوں کا اگر رشوت لینے کا ارادہ ہو تو وہ سب سے پہلے آپ سے کاغذات کا پوچھیں گے اگر وہ ہیں تو آپ سے وہ ہیلمٹ پہ چلان کا کہیں گے اگر وہ پہنا ہے تو ڈرائیونگ لائسنس کا پوچھیں گے اگر آپ کے پاس وہ بھی ہے تو یہ آپ پر ڈبل سواری کا چلان کرنے کی دھمکی دیں گے اور پھر سو روپے لیکر چھوڑ بھی دیں گے۔ میں نے پہلی بار سو روپے رشوت یہاں دی تھی۔
بہت سے ممالک نے میڈیکل ٹیسٹ کی پابندی اس لئے لگائی ہے کہ یہاں کی بیماریاں جو کہ وہاں سے ختم کو چکی ہیں دوبارہ نا جا سکیں۔ مگر ہمارے جوان رشوت لیکر وہ ٹیسٹ بھی کلئیر کروا سکتے ہیں۔
کبھی کبھی اس تعفن زدہ ماحول سے دم گھٹنے لگ جاتا ہے سو دو سو جیسی معمولی رقم جسے ہمارے بچے روزانہ جیب خرچ میں لیتے ہیں وہ بھی یہاں بطور رشوت سرعام دینا پڑتی ہے۔








