حاکمِ ریاستِ مدینہ، عمران خان صاحب کے نام کھلا خط خان صاحب! کس راہ پر ؟ تحریر: عشاء نعیم

حاکمِ ریاستِ مدینہ، عمران خان صاحب کے نام کھلا خط
خان صاحب! کس راہ پر ؟
تحریر: عشاء نعیم

ہمیں تو کچھ سمجھ نہیں آرہی
ملک ترقی کر رہا ہے یا تنزلی؟
اسلام کی راہ پہ چل پڑا ہے یا کفارمکہ کی؟
بھارت کے ساتھ دوستی ہے یا دشمنی؟
چائنہ کے ساتھ اندر ہی اندر کچھ طے ہے یا بھارت کے ساتھ ؟
امریکہ کی نظر میں سرخرو ہو گئے ہیں یا ابھی زیر عتاب ہیں؟
یو این او ہم سے خوش ہے یا ناراض؟
ایف اے ٹی ایف والے ہمارے کارناموں پہ ہمیں داد تحسین دے رہے ہیں یا ڈو مور کا مطالبہ جاری ہے ؟
جی ہاں! 2018 کے الیکشن میں جس پارٹی کی ہر طرف دھوم تھی ،جس سے پوری قوم کی امیدیں تھیں
جو کرپشن سے پاک (اگرچہ انھیں کرپٹ پارٹیوں کے لوٹوں کی بھرمار ہے اس میں بھی )
ہے اور کرپشن کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہے ۔
محب وطن ہے ۔محب وطنوں کی حفاظت کے نعرے لگے ۔
تو دین اسلام کی حفاظت کی قسمیں کھائی گئیں ۔
اسلام پسندوں کو ساتھ کا یقین دلایا گیا ،بھارت کو دشمن قرار دیا گیا ۔
مودی کو کشمیر کا دشمن قرار دیا گیا
عوام کو سکون دینے ،مہنگائی کے خلاف آواز بلند کی گئی ۔
غیروں کی غلامی سے نجات کے مژدے سنائے گئے تو چند ماہ میں کشکول توڑنے کے خواب بھی دکھائے گئے ۔
ملک کو ایک جدید اسلامی ریاست بنانے کے خواب بھی خوب دکھائے گئے ۔
پھر یہ پارٹی اقتدار میں آ گئی تو اس کا سب سے خوبصورت نعرہ تھا "پاکستان ثانی مدینہ ہے ”
اس نعرے نے پاکستان کی چونکہ اکثریت مسلمان اور اسلام پسند ہے سو ہر ایک کا دل جیت لیا ۔
کیونکہ اس ایک نعرے میں ہر وعدہ سمٹ گیا ،اسلامی ریاست ،ترقی یافتہ ،اقلیتوں کے حقوق کی پاسدار ، عیش و عشرت سے بیزار ،خدمت کے جذبے سے آشنا، انسانی حقوق کی علمبردار غرض کچھ بھی نہ بچتا تھا جو اس نعرے میں نہ سمٹتا ۔
کیونکہ ریاست مدینہ میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ریاست تھی جس میں ذرا نقص تو کیا جتنی پھیلی انسانیت کو سکون ملتا چلا گیا ،ظلم کے اندھیرے چھٹتے چلے گئے۔
(اور جب سے ریاست مدینہ کو سمیٹ دیا گیا ، راہ بدل دی گئی، گھٹا ٹوپ اندھیرے ہیں ،انسانیت سسک رہی ہے)۔
پھر وقت گزرتا رہا ،خان صاحب کی مسز نے پردہ کیا، کہیں حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کیا ،کہیں اسلام کی ایسی تصویر دنیا کو دکھائی کہ دنیا گنگ ہوگئی ،کہیں دنیا کو للکارہ کہ تم ہمیں مارو گے تو ہم بھی ماریں گے لڑیں گے چاہے شہید ہو جائیں ۔
لگنے لگا قائد اعظم اور ضیاء الحق کے بعد پاکستان کو اب مسلمان وزیر اعظم ملا ہے ۔
پوری قوم دیوانی ہو گئی ۔مخالفین کے منہ بند ہو گئے ۔
پھر وقت گزرا اور مہنگائی نے طوفان اٹھایا قوم کو کہا گیا کچھ عرصہ وطن کی خاطر سہہ لو ۔
قوم قربانی کو تیار ہو گئی ۔
وقت گزرا اور پتہ چلا کسی عورت نے گستاخی رسول کا ارتکاب کیا ہے ۔
5 جگہ جرم چابت ہونے والی آسیہ مسیح اچانک بے قصور ثابت ہو گئی اور وہ رہا ہو کر فالسے چننے والی کینیڈا پرواز کر گئی ۔
کشمیریوں کے جذبات کو سلام پیش کیا جاتا تھا ،مودی کو ظالم جابر کہا جاتا تھا کہ
5 اگست 2019 کو بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی خان صاحب کی طرف سے بڑی آس تھی شاید فوجیں ہی اتار دیں ۔
لیکن قوم پورا ایک دن نگاہیں لگا کر بیٹھی رہی کہ خان صاحب کی آنکھ کھلی اور تقریر کر ڈالی کہ اگر آزاد کشمیر کو میلی آنکھ سے دیکھا تو لگا پتہ دیں گے ۔
گویا جموں کشمیر کی اور بات ہے ۔
اس پہ چند الفاظ سازی کے سوا کچھ نہ کیا ،اور کرفیو لگے ،نٹ بند کئے مہینوں گزر گئے لیکن خان خاموش ہے ۔
پھر آئے دن قادیانی سر اٹھانے لگے ۔
کہیں وزیر بنانے کی کوشش، تو نہیں نصاب سے ختم نبوت کے الفاظ نکال دئیے گئے ۔
شور مچانے پہ کچھ الفاظ کو پھر سے داخل کیا گیا ۔
وقت اور گزرا اور ملک کی سب سےزیادہ محب وطن اور امن پسند جماعت ،جس کے سربراہ نے ہمیشہ اپنے کارکنان کو ملک میں امن قائم کرنے کا پابند کیا ،جس نے فتنہ خارج کے خلاف کئی کتابیں لکھیں، جس نے ہمیشہ مظلوموں کا ساتھ دیا ،جس نے ہمیشہ انسانیت کا درس دیا ، ملک میں تعلیم عام کی اور جگہ جگہ سکول بنائے۔
اس کے علاوہ ایک فلاحی تنظیم بنائی جو اس قدر تیز رفتار تھی کہ ہر مصیبت میں فوج سے بھی پہلے پہنچ جاتی تھی ۔اور جس کی کاوشوں کا اعتراف یو این نے بھی کیا ۔
اس شخص کو جو کفار کی آنکھ کا کانٹا ہی اپنی حب الوطنی اور انسانیت پسندی کی بنیاد پہ تھا ،نظر بند کردیا ،علما کی پکڑ دھکڑ شروع کردی ۔
اور باقاعدہ اس جماعت کو دہشت گردی کے الزامات لگا کر جرمانہ بھی کیا اور گرفتاریاں بھی کیں،جس جماعت کے خلاف دیگر پارٹی میں کوئی بات کرتا تھا تو اسے انتہائی غیر ذمہ دار اور برا سمجھا جاتا تھا ۔
مزید کچھ دن پہلے اسلام آباد میں ہندوؤں کے مندر کی تعمیر کی بنیاد رکھ دی گئی ہے ۔
اس بہت بحث ہو رہی ہے ۔( پشاور میں بھی پرانے مندر خو پوجا پاٹ کے لیے کھولنے کی اجازت دے دی گئی ہے)
اب دیکھا جائے جو مسلمان بتوں کی پوجا کو گناہ کبیرہ قرار دیتا ہے ،جو مسلمان اٹھا ہی بتوں کی پوجا کے خلاف تھا ،جس نے سن سے پہلے نعرہ ہی لا الہ الا اللہ لگایا ۔جو زیر عتاب ہی لا الہ الا اللہ کی وجہ سے ہوا ،جس نے بتایا کہ پتھروں کی غلامی سے نکل کر اللہ واحد کی عبادت کرو جو خالق کائنات ہے ۔
جس کے پیروکار تپتی دھوپ میں صحرا کی ریت میں اوپر پھر پڑے ہونے پہ بھی
احد ،احد ‘ کہیں، وہ کس طرح بتوں کی پوجا کے لئے جگہ یا پیسہ مہیا کر سکتا ہے ؟
مذہب اسلام انسان کو ہر غلامی سے نکال کر صرف رب واحد کے سامنے جھکنے کا درس دیتا ہے ۔
سو اسلام میں بتوں کی پوجا حرام ہے ۔
اب حرام کام کے لئے کوئی مسلمان حکمران نہ تو پیسہ دیتا ہے نہ ہی جگہ ۔
بلکہ مسلمان جہاں جہاں گئے انھوں نے بت کدوں کو مسمار کیا یا مساجد میں تبدیل کردیا ۔تاکہ انسان اپنے ہی ہاتھ کے تراشے گئے پتھروں کے سامنے جھک کر اپنی توہین نہ کرے ۔
البتہ جہاں ہندوؤں کی اکثریت تھی وہاں ان کے عبادت خانے محفوظ رہنے دئیے ۔
مسلمان ملک میں غیر مسلم کو بھی اپنے طریقے سے عبادت کرنے کا حق حاصل ہے لیکن ایک تو وہ سرعام عبادت یا تبلیغ نہیں کر سکتے دوسرا وہ سب اپنے پیسے سے سن کر سکتے ہیں،مسلمانوں کے پیسے خرچ نہیں ہو سکتے ۔
علما کرام بھی اس پہ فتوی دے چکے ہیں کہ وہ خود کچھ کر سکتے ہیں لیکن مسلمان ملک کا حکمران پیسہ نہیں دے گا ۔
ابھی یہ معاملہ حل نہیں ہوا کہ اسلام آباد میں ہی ایک پچیس سال سے تعمیر شدہ مسجد کو یہ کہہ کر مسمار کرنا شروع کردیا گیا کہ یہ غیر قانونی ہے ۔
جبکہ مندر کی جگہ کے بارے میں بھی یہ معاملہ ہے کہ وہ جگہ مسلمانوں کی ہے ۔
جبکہ مسجد کی جگہ کا کہا جاتا ہے کہ وہ حکومت کی ہے ۔
کیا حکومت مسجد کے لئے یہ چند کنال جگہ نہیں دے سکتی؟
جبکہ حکومتی وزراء کے اللے تللے بھی سب کو پتہ ہے کہ کس قدر سن وزراء پہ پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ ایک ایک وزیر کروڑوں روپے میں پڑتا ہے اس غریب عوام کو ۔
اور مسجد کی تعمیر کے بارے میں مسلمان کے لیے جنت میں محل کی خوش خبری ہے تو کیا اس کی شہادت اپنے ہی ہاتھوں کریں مسلمان تو اس کا عذاب نہ اترے گا ؟
کیا اللہ واحد کی عبادت کی جگہ جہاں رحمت کے فرشتے اترتے ہیں، جہاں پانچ وقت موذن اذان دے کر لوگوں کو اللہ کی عبادت اور فلاح کی طرف بلاتا ہے ،جہاں پانچ وقت رب کو سجدہ کیا جاتا ہے اور اسی کو پکارا جاتا ہے اس عمارت کو ڈھانا اتنا ہی عام ہے ؟
جبکہ مندر غیر ضروری بھی ہے کیونکہ چند ہندو آباد ہیں اسلام آباد میں، اور اسلام میں یہ حکومت کے لیے جائز بھی نہیں ہے ۔پھر کیوں یہ حکومت ان کے غم میں گھلی جاتی ہے ؟
خدارا ! خان صاحب ہوش کے ناخن لیں اور اپنی راہ سیدھی کریں ۔
شاید آپ گرے لسٹ سے نکلنے کے لئے سب کر رہے ہیں تو یاد رکھیں جب تک آپ مسلمان ہیں ان کے نزدیک گرے تو کیا بلیک لسٹ ہی رہیں گے ۔
کیونکہ اللہ نے ہمیں بتادیا کے یہ کبھی تم سے خوش نہ ہوں گے حتی کہ تم ان کا دین اختیار کر لو۔
اور یہ بھی کہ یہ کفار سب ایک ہیں تمہارے خلاف ۔
سو اس رب کے سامنے جھکیں جو اقتدار اور ملک دے بھی سکتا ہے چھین بھی سکتا ہے ۔
اسی کا بتایا ہوا نظام ہے اسلامی نظام
اسی کے نام پہ ملک بنا ،اسی کے نظام پہ چلائیے ۔اقلیتوں کو ضرور ان کے حقوق دیجئے لیکن اتنے ہی جتنے اس خالق کائنات نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے بتائے ہیں ۔
بیرونی آقاوں کو اتنا ہی راضی کیجئے کہ اسلام اور ملک پہ گزند نہ آئے ۔ورنہ وہ سب اکٹھے بھی ہو جائیں تو یاد رکھیں آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے جب تک وہ رب آپ کے ساتھ ہوگا ۔
مساجد کی شہادت سے باز رہیں، مندر کی تعمیر سے بھی رک جائیے اور علما کو رہا کیجئے۔
اللہ کی رحمتیں برسیں گی ۔ملک ترقی کرے گا کوئی نہ روک پائے گا ۔اللہ آپ کو بھی عزت دے گا ۔ان شا اللہ
اللہ رب العزت آپ کو عمر فاروق رضی اللہ کی براہ پہ چلائے ۔
آمین

Comments are closed.