رزق کمانا آسان کام نہیں تحریر : چوہدری عطا محمد

0
45

اللّٰہ تعالٰی نےرزق تو نصیب میں لکھ دیا لیکن وسیلہ بنایا پردیس
اور پردیس کی زندگی اک ایسی میٹھی جیل ہے جو انسان چاہ کر بھی نہیں چھوڑ سکتا.
اپنے پیاروں سے بچھڑ کر کسی کا باپ تو کسی کا بھائی اور کسی کا شوہر زرق حلال کی خاطر میلوں دور نکل جاتا ہے۔اور کئی سال بچارا دن رات خون پسینہ اک کر کے اپنے اہل خانہ کے روشن مستقبل کی خاطر اپنی، ندگی کے قیمتی دن اپنوں پر وار دیتا ہے اور رب تعالی کے حکم سے جب کئی سالوں بعد واپس لوٹتا تو ایسا لگتا کہ کسی اجنبی شہر کی طرف سفر کر رہاے اور اسکے ساتھ رویہ بھی وہی اپنایا جاتا کہ یہ تو مہمان ہے اور حقیقت ہے بھی یہی کہ اب اس کا دیس پردیس بن چکا ہوتا کیونکہ وہ چند دنوں کا مہمان ہی تو بن کر جاتا ہے اور پردیس ہی اب اسکا دیس ہے.

اپنوں سے بچھڑ کر کون پردیس جانا چاہتا ہے مگر اپنوں کی ہی خاطر جانا پڑتا ہے۔۔جانا پڑتا ہے۔۔۔

اور اگر اک جائزہ لیا جاے تو دنیا میں سب سے بڑی غربت غریب الوطنی ہے حصول رزق کے لیے اپنے وطن کو چھوڑ کر سے دیار غیر میں جوان گیا اور پردیس میں بوڑھے ہوگئے ان کا درد وہی جانتے ہیں جب اپنے والدین کی دروازے پر لگی آنکھیں بند ہو جانے کے بعد بھی گھر نا آسکے وہ اپنے بچوں کے بچپن کے دنوں کو محسوس نہ کر سکے انکی کلکاریاں نا سن سکے ان کو ننھے ننھے ہاتھوں کو چھو کر پیار سے چوم نہ سکے اپنے بچے کو گود میں لے کر اسے باپ کا پیار نہ دے سکے باپ کے ہوتے ہوے بھی بنا باپ کی زندگی کے عادی بنا دیے یہ کیسا ستم ہے ان معصوم کلیوں پر جن کی خاطر وہ ہزاروں میل دور بیٹھا محنت مزدوری کر رہا وہ ان کے سکول کا پہلا دن سکول تک نہ چھوڑ سکے نا دیکھ سکے وہ ان کی زبان سے نکلا پہلا لفظ نا سن سکے.
وہ انکی کمی کو شدید محسوس کرتے رہے تب جب دوسرے بچے اپنے بابا کے کندھوں پر بیٹھ سکول جاتے دیکھتے وہ دیکھتے کہ انکے بابا انہیں سکول کے دروازے پر پیار کرتے انکے چہرے پر شفت بھرا ہاتھ پھیرتے اور کہتے کہ بیٹا میں چھٹی ٹائم لینے آ جاؤں گا تب کیا بیتتی ہے ان بچوں کے دلوں پر وہ معصوم کلیاں تب انکے دل مرجھا جاتے اور دل میں حسرت لیے سکول کی سیڑھیوں پر قدم رکھتے ہو بوجھل قدموں سے اندر داخل ہو جاتے ہیں مگر یہ واقعہ انکے دل ودماغ میں نقش ہو جاتا ہے اور بچہ احساس کمتری کا شکار ہو جاتا باپ کا سایہ پاس ہونا بھی خدا کی بہت بڑی نعمت ہے. اللّہ تعالیٰ کسی باپ کو اسکے بچوں سے دور نہ کرے اور اسکی قسمت میں پردیس نہ لکھے.

پردیس میں بیٹھا شخص اپنے کئی رشتوں کو کھو چکا جن کے ساتھ زندگی کے کئی سال گڈار چکا ہوتا وہ آج منو مٹی تلے دب چکے مگر وہ بیچارہ پردیس کی کی جیل میں قید انکے آخری دیدار کو بھی نہ آ سکے

یہ غریب الوطنی کا درد وہی جانتا ہے جو اس سے گزرتا ہے وہ اپنی بیوی کے ساتھ جوانی کے خوبصورت ایام نا گزار سکا تب جب اسکی شادی کو کچھ ماہ ہی ہوے تھے وہ اسے اپنی بنا جرم قید میں ڈال کر اس سے دور چلا جاتا ہے.
وقت و حالات نے اس کی تمام توانائیاں نچوڑ ڈالیں وہ اپنے اہل خانہ کی خوشحال زندگی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرگیا تب جب یہ اسکی زندگی کے خوبصورت دن اور لمحات تھے انکی اس قربانی کو کون لوٹا کردے گا شایداس کا کوئی ازالہ نہیں اور نہ ملے گا.

پردیس کی قید میں وہ تنہا بیمار ہوا ٹھیک ہوگیا اپنوں سے دور رہ کر اداس ہوا پھر ہنس دیا اپنوں کی آواز فون پر سنی تو تسلی کرلی مگر وہاں دیس میں بیٹھے اپنے گھروں بیٹھے اسکی کال کو بھی اک فضول وقت گذاری کا کہہ کر مرضی سے سنتے وہ پھر بھی انہیں محسوس نہیں کرواتا اور مصنوعی مسکراہٹ اور جھوٹے لب ولہجہ سے کچھ لمحے بات کر لیتا اور خود ہی خود یہ کہہ کر تسلی دے لیتا کہ وہ مصروف تھے تم نے کیوں مجبور کیا انہیں مگر وہ نہیں جانتے کہ اسکے دل پر کیا گذر رہی ہوتی وہ اک تو اپنا سب کچھ قربان کر چکا ہوتا اپنی جوانی اپنی شادی کے بعد کے خوبصورت دن اپنے بچوں بچپن مگر پھر بھی اسکی زبان سے کبھی شکوہ وگلہ نہ نکلا ٹھیک ہوکر بھی خود کو غلط کہہ لیا اورجب دل بہت تنگ ہوا تو اٹھا اور اپنے وطن اپنے گھر کی یاد میں چائے بنائی اور کھڑکی میں کھڑا ہوکر پینے لگا آسمان کی طرف نظر دوڑائی چاند کو دیکھا اور سوچوں پڑ گیا کہ یہ مرے گاؤں میں بھی نکلا ہوگا

یہ سردیوں کا موسم یہ بلا کی سردی اپنے گھر کی رضائی میں بیٹھا چائے پکوڑے کے مزے لینے والا شخص اپنوں کے ساتھ بیٹھ کر خوش گپیوں کو یاد کر کے ہنسنے لگتا اور وہ ہنسی مزاق جو سب بہن بھائی مل کر کرتے تھے سب بہت یاد آتا ہے مگر وہ پھر بھی اپنوں کے لیے آنسو آنکھوں میں بھینچ لیتا ہے خود کو سنبھالتا ہے اور بے دھیانی میں اک آدھ آنسو اسکی کی چائے کی پیالی میں گر جاتا ہے اور وہ دل کو تسلی دے کر چاے کی چسکی لیتا اور کہتا ہے پہلے والا گذر گیا یہ بھی گذر جاے گا.
اور قسمت اچھی ہو تو کمرے میں ساتھ رہنے والے اگر کوئی اچھے ساتھ مل جائیں تو پھر کبھی کبھی مل جل کر ایک دوسرے کا درد بانٹ لیتے ہیں اور پردیس کی گرمی میں اپنی وطن کی سردی یاد کرکے چائے سے دل ٹھنڈا کرلیتے ہیں.

پردیسیوں کے نام

ایک ایسا سفر کروایا زندگی نے
جس میں پاؤں نہیں میری روح تھک گئی

@ChAttaMuhNatt

Leave a reply