عسکری تحریک میں کشمیری خواتین کا لازوال کردار……. تحریر: یاسمین میر

0
92

بھارت کو کشمیر میں خونی پنجے گاڑے ستر برس بیت گئے مگر سلام ہو ان بہادر ونڈر کشمیری مردوزن پر کہ نہتے ہو کر بھی دشمن کے دانت کٹھے کر رہے ہیں۔

1989 سے آج تک لاکھوں جانوں کا نذرانہ دینے کے باوجود وطن کی آزادی کے لیے کشمیر ی اب بھی کٹ مرنے کو تیار ہیں۔ کشمیر کی مائیں اپنے بیٹوں میںبے جگری سے جینے اور شوق شہادت کا یہ جذبہ نسل درنسل منتقل کرتی چلی آرہی ہیں۔

تحریک کے روز اول سے ہی کشمیری خواتین اپنے بیٹوں ‘ بھائیوں اور شوہروں کو وطن پر قربان کرنے کیلئے ہر لمحہ تیارر ہتی ہیں ۔ عملی طورپر دیکھیں تو عسکری تحریک میں کشمیری خواتین کا کردار نہیں ملتا لیکن کشمیر مومنٹ کے تیز ہونے کے بعد 1989 میں کشمیری خواتین نے تنظیم سازی کرنے لگیں تو ساتھ ہی حریت تحریکوں کے خواتین ونگ بھی بننا شروع ہو گئے۔

اس وقت سے آسیہ اندرابی ’ دختران ملت،زمردہ حبیب تحریک خواتین، یاسمین راجہ مسلم خواتین مرکز، فریدہ بہن جی ماس مومنٹ جموں وکشمیر اور پروینہ آہنگر اے پی ڈی چلا رہی ہیں۔

ان خواتین کے تنظیموں میں سینکڑوں خواتین ممبرز بھی موجود ہیں جو نہ صرف عام کشمیری کو آزادی کی اہمیت سے آگاہ کرتی ہیں۔ بلکہ 90 کے دہائی میں جب درندہ صفت بھارتی فوجیوں نے خواتین کی عزتیں پامال کرنا شروع کیں تو آسیہ اندرابی نے آگاہی مہم کے دوران خواتین کو اپنے پاس چاقو رکھنے اور دفاع کے طورپر اس کو استعمال کرنے کے طریقے بھی سیکھائے ۔

یہی نہیں تحریک کے آغاز سے اب تک کشمیری خواتین مجاہدین کو پناہ دینے ان تک کھانا پہنچانے اور انہیں سیکورٹی فورسز سے بچانے میں بھی پیش پیش رہی ہیں۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد تو ہم مقبوضہ کشمیر میں خواتین کے بڑے احتجاجی مظاہرے دیکھ رہے ہیں ۔

لیکن پہلا آرگنائز احتجاجی مظاہرہ 1990 میں دختران ملت کی کال پر ہوا اور اس وقت خواتین نے مسجد میں جاکر نعرہ لگائے۔ اب وادی میں وہ دور لوٹ آیا ہے جب کشمیری خواتین کا اپنے رشتہ داروں کی تلاش اور کیسیز کی پیروی کے لیے دہلی کی عدالتوں اور تہاڑ جیل کے چکر لگانا معمول بن چکا ہے ۔

پاکستانی قوم بھی کشمیری بھائیوں اور بہنوں سے بے خبر نہیں، تحریک آزادی کے ستر سالوں کے اعصاب شکن مراحل سے گزر کرگزشتہ دو سو دنوں میں آزادی کی جد جہد میں عورتوں کی بھرپور شمولیت آنے والی صبح نو کے لیے امید کا پیغام دے رہی ہے۔ جہدوجد آزادی میں خواتین کے سرگرم کردار اور زمینی حقائق کے متعلق دختران ملت کی چیئرپرسن آسیہ اندرابی کہتی ہیں کہ میں کئی بار جیل گئی انڈر گر اؤنڈ رہی حتی کہ حال ہی میں برہان وانی کی شہادت کے بعد تین مہینے کے لیے جیل میں رکھا گیا اور اس وقت بھی ہاؤس اریسٹ ہوں ۔

مگر آخری دم تک کشمیر کی آزادی کے لیے جدوجہد میں خواتین کے سرگرم کردار اور زمینی حقائق کے متعلق دختران ملت کی چیئرپرسن آسیہ اندرابی کہتی ہیں کہ میں کئی بار جیل گئی انڈر گر اؤنڈ رہی حتی کہ حال ہی میں برہان وانی کی شہادت کے بعد تین مہینے کے لیے جیل میں رکھا گیا اور اس وقت بھی ہاؤس اریسٹ ہوں ۔ مگر آخری دم تک کشمیر کی آزادی کے لیے جدوجہد جاری رکھوں گی۔

چوبیس سال سے میرے شوہر جیل میں ہیں۔ لاکھوں کشمیری خواتین ایسی ہیں جن کے شوہر کئی سالوں سے لاپتہ ہیں اور تاریخ میں پہلی بار کشمیری خواتین کے لیے (آدھی بیوہ )کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔ مگر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بھارت کچھ بھی کر لے ہمارے اٹل ایمان کو شکست نہیں دے سکتا۔

چیئرپرسن جموں کشمیر ماس موومنٹ فریدبہن جی کہتی ہیں کہ میرے بھائی بلال پر پاکستان سے وابستگی کا الزام لگا کر گرفتار کیا گیا بعدازاں دہلی دھماکوں کے بعد بھارتی فوجیوں نے نہ صرف مجھے گرفتار کیا بلکہ پانچ سال کے لیے تہاڑ جیل بھیج دیا اور 2001ء میں جیل سے رہا ہوئی تو بھارت کی جیلوں میں قید کشمیری قیدیوں کی قانونی مددکا بیڑہ اٹھایا۔ زمردہ حبیب تحریک خواتین کشمیر کی چیئرپرسن ہیں ۔

وہ 1992ء سے آزادی کی تحریک میں متحرک ہیں اور اسی پاداش میں 5 سال کے لیے تہاڑ جیل بھی کاٹ چکی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کی خواتین کے قربانیاں گواہ ہیں کہ کشمیری عورت کو ڈرایا یا دھمکایا نہیں جاسکتا۔ مسلم خواتین مرکز کی چیئرپرسن یاسمین راجہ جو غلام نبی بٹ کی بیٹی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ بچپن سے ہی پاکستان کی نغمے گاتی تھی۔

ایک مرتبہ پاکستانی قومی ترانہ پڑھنے پر مجھے سکول سے نکال دیا گیا۔ مگر میری پاکستان کے ساتھ لگن کم نہیں ہوئی۔ اس دوران کئی بار جیل گئی ہوں اور رہا ہوئی ہوں۔ تحریک آزادی کشمیر کی ان چند نمایاں خواتین کے علاوہ دیگرکشمیری خواتین کا بھی آزادی کی جدوجہد میں کلیدی کردار رہا ہے۔

اسلام اور آزادی کی اس شمع کو جلا رکھنے کے لیے برہان وانی کی شہادت کے بعد سے چلنے والی تیز ترین عوامی جدوجہدکو دبانے کے لیے بھارت کے ظلم وستم سے جہاں سو کشمیری شہید ہو ئے ان میںخواتین بھی شامل ہیں

گزشتہ چھ ماہ میں یاسمین رحمان‘ سعیدہ بیگم ‘ نیلوفر‘ یاں اور فوزیہ صدیق سمیت کئی خواتین نے جام شہادت نوش کیا۔ وہیں خواتین کے پرامن ریلیوں ‘ جلسوں ‘ اور حتی کہ گھروں میں گرنے والے آنسووں گیس کے گولوں ‘ پیلٹ گن کے چھروں سے انشاء مقبول ‘ عرفی جان‘ شیروزہ میر‘ افراء جان‘ شیروزہ شکور کو آنکھوں کی روشنی سے ہاتھ دھونا پڑا۔

یہی نہیں اس وقت ہزاروں کشمیری مائیں غربت کے باعث بچوں کی آنکھوں کا علاج نہیں کروا پا رہی ہیں ۔ جو پیلٹ گن کے چھرو ںسے متاثر ہوئے ہیں۔ ریاستی اخبار کی رپورٹ کے مطابق 9 جولائی 2016ء سے 31 دسمبر 2016ء تک 1008 نوجوان پیلٹ گنوں کا نشانہ بنے اور زخمی ہوئے ۔ ان میں سے سو سے زائد کے والدین نے غربت کے باعث ان کی آنکھوں کا علاج ادھورا چھوڑ دیا ۔

اعدادو شمار کے آئینے میں دیکھیں تو کشمیر میڈیا سروسز کے مطابق 1989ء سے 31 دسمبر 2016 ء تک کشمیر میں بیوہ خواتین کی تعداد 22,835 ہے۔ جبکہ 10,825 خواتین کی اجتماعی عصمت دری کے واقعات پیش آچکے ہیں اور شہادتوں کے نتیجے میں 107,603بچے یتیم ہو چکے ہیں۔یہ شواہد اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ تحریک آزادی میں سرگرم کشمیری خواتین مالی پریشانی کے باوجودفلسطینی بہنوں کی طرح ہمت و حوصلہ کی مثال قائم کئے ہوئے ہیں۔

کشمیر کی مظلوم عورتیں اسلام کے علمبردار خواب غفلت میں
تحریر: یاسمین میر

Leave a reply