اسلام آباد : اسمبلی کی تحلیل ختم کر دی گئی ہے قومی اسمبلی بحال کر دی گئی ہے تحریک عدم اعتماد برقرار رہے گی، فیصلے کے مطابق وفاقی کابینہ بحال کر دی گئی ہے صدر کا اسمبلی تحلیل کرنے کا فیصلہ بھی کالعدم قرار دے دیا گیا ہے ۔

عدالت نے کہا کہ عدم اعتماد کامیاب ہو تو فوری وزیراعظم کو الیکشن کروایا جایے حکومت کسی صورت اراکین کو ووٹ دینے سے نہیں روک سکتی ۔ آرٹیکل 63 اے پر اس فیصلے کا اثر نہیں ہو گا پانچ رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا عدالت نے نو اپریل کو اجلاس بلانے کا بھی حکم دیا اور کہا کہ عدم اعتماد پر ووٹنگ کروائی جائے ۔چیف جسٹس نے فیصلہ سنایا کہ ہمارا فیصلہ متفقہ رائے سے ہے، تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کریں گے،

فیصلے میں کہا گیا کہ رولنگ 3 اپریل کو دی گئی، جن لوگوں نے ریکوزیشن دیا تھا انہیں نوٹس دیئے، جن لوگوں نے ریکوزیشن دی تھی انہیں نوٹس دیئے، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ آئین کے منافی ہے، تحریک عدم اعتماد زیرالتوا رہے گی،قومی اسمبلی توڑنا بھی خلاف قانون تھا، قومی اسمبلی پرانی پوزیشن پر بحال ہوگی، وفاقی کابینہ عہدوں پربحال، قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کرنا بھی غیرآئینی قرار دے دیا گیا۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں قرار دیا کہ 9اپریل کو دن ساڑھے 10 بجے قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا جائے، قومی اسمبلی اجلاس میں ارکان عدم اعتماد پر ووٹ کا سٹ کرسکیں گے، آرٹیکل 63 کے نفاذپر عدالتی فیصلہ اثر انداز نہ ہوگا۔فیصلہ سنانے کے بعد ججز کمرہ عدالت سے چلے گئے۔

[wp-embedder-pack width=”100%” height=”400px” download=”all” download-text=”” attachment_id=”481429″ /]

سپریم کورٹ فیصلے کے اہم نکات

عدالت عظمٰی کے پانچ ججوں نے اپنے مختصر فیصلے کے 13 پیراز میں کیا لکھا ہے آئیے دیکھتے ہیں پیراوائز فیصلے میں کیا بھی ہے
1-پیرا نمبر 1 میں ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غیر آئینی قرار دے دی۔
2-پیرا نمبر 2 میں تحریک عدم اعتماد کو زیر التواء قرار دیا۔
3-پیرا نمبر 3 میں لکھا ہے کہ جب تحریک عدم اعتماد زیر التواء ہو تو وزیر اعظم صدر جو اسمبلی توڑنے کا مشورہ نہیں دے سکتا۔
4-پیرا نمبر 4 میں لکھا ہے کہ صدر کا 3 اپریل کو اسمبلی توڑنے کا آرڈر منسوخ کیا جاتا ہے۔
5-پیرا نمبر 5 میں لکھا ہے کہ چونکہ صدر نے اسمبلی غلط مشورے پہ توڑی اور وہ حکم منسوخ ہو گیا لہذا اسمبلی اپنی پہلی حالت میں موجود ہے ۔
6-پیرا نمبر 6 میں لکھا ہے کہ صدر کی طرف سے نگران حکومت اور عام انتخابات کے لیے اٹھائے گئے تمام اقدامات کالعدم کیے جاتے ہیں۔
7-پیرا نمبر 7 میں لکھا ہے کہ وزیراعظم انکی حکومت اور تمام وزراء کو انکے عہدے پہ 3اپریل کی حالت پہ بحال کیا جاتا ہے۔
8-پیرا نمبر 8 میں لکھا ہے کہ سپیکر کی طرف سے تحریک عدم اعتماد پہ کاروائی کے لیے اسمبلی کے بلائے گئے اجلاس کی منسوخی یا ملتوی کرنے کے تمام احکامات کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے اور ایسے احکامات منسوخ کیے جاتے ہیں ۔
9-پیرا نمبر 9 میں لکھا ہے کہ اسمبلی کا اجلاس ہفتہ کو صبح ساڑھے دس بجے سے بچے سے قبل بلا کر اس پہ تحریک عدم اعتماد پہ ووٹنگ کرائی جائے۔
10-پیرا نمبر 10 میں لکھا ہے کہ سپیکر آئین کے تحت اس وقت تک اجلاس ملتوی نہیں کر سکتے جب تک تحریک عدم اعتماد یا تو ناکام ہو جائے دوسری صورت میں جب وہ کامیاب ہو جائے تو قاید ایوان کے انتخاب کے بعد اجلاس ملتوی کیاجائے گا۔
11-پیرا نمبر 11 میں لکھا ہے کہ وفاقی حکومت تحریک عدم اعتماد پہ ووٹنگ کے لیے تمام ممبران کو سہولت فراہم کرے گی اور کوئی ایسا عمل نہیں کرے گی جس سے ووٹ ڈالنے میں رکاوٹ پیدا نہیں ہونے دے گی اور اٹارنی جنرل کی طرف سے کرائی گئی یقین دھانی پہ عمل کرے گی۔
12-پیرا نمبر 12 میں لکھا ہے کہ آرٹیکل 63-A کے حوالے سے کوئی آرڈر نہیں ہے اور جو بھی اس ضمن میں آئے گا اسکی نااہلی کا معاملہ قانون کے مطابق دیکھا جائے گا۔چاہے وہ تحریک عدم اعتماد پہ ووٹنگ میں حصہ لے یا وزیر اعظم کے انتخاب میں ووٹنگ میں حصہ لے۔
13-پیرا نمبر 13میں لکھا ہے کہ یہ حکم اس حکم کا تسلسل ہے جس کے تحت صدر اور وزیراعظم کے تمام احکامات کو اس ازخود نوٹس کے فیصلے کے تابع کیا گیا تھا۔

چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ نوے دن میں الیکشن کمیشن کروانے کے پابند ہیں تاہم حلقہ بندیوں کی وجہ سے سات ماہ چاہیے عدالت نے کہا کہ ملک بھر میں حلقہ بندیاں کروانی ہیں تو چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ ملک بھر میں کروانی ہیں

‏سپریم کورٹ کے فیصلے سے قبل عدالت کی سیکیورٹی بڑھادی گئی تھی ۔ایف سی اور پولیس کی سیکیورٹی نے عدالت کے اندر اور باہر اطراف کی سڑکوں پر غیر متعلقہ افراد کے داخلے پر پابندی لگادی۔آئی جی اسلام آباد بھی خود عدالت پہنچ گئے۔مشکوک افراد کو فوری گرفتار کرنے کا حکم دے دیا ہے ادھر رضا ربانی، فواد چودھری، بابر اعواں،فیصل جاوید،شیری رحمان، نیئر بخاری، خرم دستگیر، اعظم نزیر تارڑ سمیت کئی اہم رہنما سپریم کورٹ پہنچ چکے ہیں

یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ‏غیر متوقع طور پر چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ فیصلہ سپریم کورٹ میں فیصلہ سنانے سے پہلے کمرہ عدالت نمبر 1 پہنچ گئے ،
یاد رہےکہ اس سے پہلے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایک بات نظر آ رہی ہے کہ رولنگ غلط ہے، دیکھنا ہے اب اس سے آگے کیا ہوگا، قومی مفاد کو بھی ہم نے دیکھنا ہے، قومی اسمبلی بحال ہوگی تو بھی ملک میں استحکام نہیں ہوگا، ملک کو استحکام کی ضرورت ہے، اپوزیشن بھی استحکام کا کہتی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کی۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ رات کو نجی ہوٹل میں تمام ایم پی ایز نے حمزہ شہباز کو وزیراعلی بنا دیا، سابق گورنر آج حمزہ شہباز سے باغ جناح میں حلف لیں گے، حمزہ شہباز نے بیوروکریٹس کی میٹنگ بھی آج بلا لی ہے، آئین ان لوگوں کیلئے انتہائی معمولی سی بات ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ پنجاب کے حوالے سے کوئی حکم نہیں دیں گے، پنجاب کا معاملہ ہائیکورٹ میں لیکر جائیں۔

جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ کل پنجاب اسمبلی کے دروازے سیل کر دیئے گئے تھے، کیا اسمبلی کو اس طرح سیل کیا جا سکتا ہے ؟ ن لیگ کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ارکان صوبائی اسمبلی عوام کے نمائندے ہیں، عوامی نمائندوں کو اسمبلی جانے سے روکیں گے تو وہ کیا کریں ؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قومی اسمبلی کے کیس سے توجہ نہیں ہٹانا چاہتے۔ انہوں نے اعظم نذیر تارڑ اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو روسٹرم سے ہٹا دیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کیا وزیراعظم پوری قوم کے نمائندے نہیں ہیں ؟ جس پر وکیل صدر مملکت علی ظفر نے کہا کہ وزیراعظم بلاشبہ عوام کے نمائندے ہیں۔ جسٹس مظہر عالم نے پوچھا کہ کیا پارلیمنٹ میں آئین کی خلاف ورزی ہوتی رہے اسے تحفظ ہوگا ؟ کیا عدالت آئین کی محافظ نہیں ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا پارلیمنٹ کارروائی سے کوئی متاثر ہو تو دادرسی کیسے ہوگی ؟ کیا دادرسی نہ ہو تو عدالت خاموش بیٹھی رہے ؟ اس پر علی ظفر نے کہا کہ آئین کا تحفظ بھی آئین کے مطابق ہی ہو سکتا ہے، پارلیمان ناکام ہو جائے تو معاملہ عوام کے پاس ہی جاتا ہے، آئین کے تحفظ کیلئے اس کے ہر آرٹیکل کو مدنظر رکھنا ہوتا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا اگر زیادتی کسی ایک ممبر کے بجائے پورے ایوان سے ہو تو کیا ہوگا ؟ اس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ اگر ججز کے آپس میں اختلاف ہو تو کیا پارلیمنٹ مداخلت کر سکتی ہے ؟ جیسے پارلیمنٹ مداخلت نہیں کرسکتی ویسے عدلیہ بھی نہیں کرسکتی۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا وفاقی حکومت کی تشکیل کا عمل پارلیمان کا اندرونی معاملہ ہے ؟ اس پر علی ظفر نے کہا کہ حکومت کی تشکیل اور اسمبلی کی تحلیل کا عدالت جائزہ لے سکتی ہے، وزیراعظم کے الیکشن اور عدم اعتماد دونوں کا جائزہ عدالت نہیں لے سکتی۔

صدر مملکت کے وکیل علی ظفر نے جونیجو کیس فیصلے کا حوالہ دے دیا۔ علی ظفر نے کہا کہ محمد خان جونیجو کی حکومت کو ختم کیا گیا، عدالت نے جونیجو کی حکومت کے خاتمہ کو غیر آینی قرار دیا، عدالت نے اسمبلی کے خاتمہ کے بعد اقدامات کو نہیں چھیڑا۔ جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ ہمارے سامنے معاملہ عدم اعتماد کا ہے، عدم اعتماد کے بعد رولنگ آئی، اس ایشو کو ایڈریس کریں۔ علی ظفر نے کہا کہ یہاں بھی اسمبلی تحلیل کر کے الیکشن کا اعلان کر

Shares: