آر ایس ایس ہی سب کچھ ہے

ایک عجیب امر ہے, آج کل جس کو دیکھو وہی بی.جے.پی کی محبت میں سرشار ہے, کیا قائدین, کیا عوام, سب کو لگتا ہے کہ ابھی تک آر.ایس.ایس کی مخالفت بیکار میں کی گئی, اس سے اچھی, سلجھی, بہتر اور وطن پرست تنظیم بھلا اور کہاں, کل تو تک جو لوگ ببانگ دہل اسٹیجوں پر چیخ و پکار کیا کرتے تھے, وہ آج مخالفت کو ترک کرنے کے مشورے دیتے نظر آتے ہیں, اچھا, اچھی بات ہے, مخالفت ترک کردینی چاہئے, مذاکرت کی راہ اپنانی چاہئے, لیکن مذاکرات کرنے سے پہلے کیا کوئی اس بات کی ضمانت دے سکتا ہے کہ آر.ایس.ایس گوالکر کو اپنا رہنما اب تسلیم نہیں کرے گی؟ گوڈسے کے افکار و نظریات سے پلڑا جھاڑ لے گی؟ جن اصولوں پر آر.ایس.ایس قائم ہے اس سے سمجھوتہ کرلے گی؟

شاید شکست خوردہ قوم اسی طرح ہوتی ہے, جسمانی شکست خوردگی ہوتی تو سنبھال بھی لیتے, ہم سب تو ذہنی شکست خوردگی کے شکار ہیں, اور یہ ذہنی شکست خوردگی بھی کیوں؟ کچھ لوگوں کے مفاد جڑے ہوئے ہیں, اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت میں کھڑے ہوں گے تو ان کے مفادات کو نقصان پہونچنے کا اندیشہ ہے, ورنہ کیا وجہ ہے کہ ایک مہینے سے ایک اسٹیٹ کو جیل خانہ میں تبدیل کیا گیا ہے, مگر کوئی آواز سنائی بھی نہیں دیتی؟ آخر یہ ڈر کیسا ہے؟ ہزیمت زدہ لوگوں کی نفسیات انہیں Resistance سے روکتی ہے, حق کی حمایت اور ظلم کی مخالفت سے ڈراتی ہے, ایران توران کا معاملہ ہو تو بڑی بڑی باتیں کی جائیں, اور گھر میں ظلم ہو تو چپی سادھ لی جائے؟

یہ بات ذہن نشین کرلیجئے, کہ آر.ایس.ایس کو آپ سے نہیں پرابلم ہے, اسے کوئی تکلیف نہیں, کیونکہ اسے معلوم ہے کہ ہندوستان میں جس طرح سے مسلمان بکھرے پڑے ہیں, انہیں ختم کیا جانا اس قدر آسان بھی نہیں, پھر وہ چاہتی کیا ہے؟؟ اقتدار نا؟ ہاں, اقتدار ہی, وہ بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے, وہ آپ کی مشارکت نہیں چاہتی, وہ آپ کو برابر کا شئیر نہیں دے سکتی, ہاں بطور ملازم اور نوکر آپ کو ضرور ہائر کرسکتی ہے, آپ کو کیرلا کا گورنر ضرور بنا سکتی ہے, مگر آپ کی حیثیت چپراسی سے بڑھ کر نہیں ہوسکتی, آپ اپنی قوم کی سوشل Upliftment کے لئے کچھ نہیں کرسکتے, اور اگر جمہوریت میں آپ کا شئیر ہی ختم ہوجائے تو پھر کیا پڑی ہے کہ آپ کو دشمن سمجھا جائے, یقین مانئے اگر آپ ہندو راشٹر کو تسلیم کرلیں یا پھر اس بات پر راضی ہوجائیں کہ حکومت ہمیشہ آر.ایس.ایس کی رہے گی تو آپ کو کبھی ستایا نہیں جائے گا, ساری لڑائی بس پاور کے لئے, جس دن آپ یہ تسلیم کرلیں گے, آپ کے اوپر سے ظلم و ستم بند کردیا جائے گا, مگر کیا پھر آپ اس وقت آزاد تصور کئے جاسکیں گے؟ کیا آپ کی حالت اس پنچھی کی طرح نہیں ہوگی جس کو دو وقت کا کھانا تو ضرور دیا جاتا ہے مگر وہ کھلی فضاؤں میں سانس نہیں لے سکتا, کیونکہ یا تو اس کے پر کتر دئیے گئے ہوتے ہیں, یا پھر وہ پنجرے میں بند ہوتا ہے.

ہمیشہ تاریخ کے پنوں نے یہی دیکھا ہے کہ قوموں کی مغلوبیت کے ایام میں قوم فروشوں کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے, بکنے والے تھوک بھاؤ میں مارکیٹ میں نظر آنے لگتے ہیں, چند سکوں کے عوض قوم کے ان جانبازوں کو بھی گروی رکھ دیتے ہیں کہ جن سے قوم کا مستقبل وابستہ ہوتا ہے, ایسے ایسے لوگ میر و جعفر میں تبدیل ہوجاتے ہیں کہ جن کے بارے میں امید کی جاتی ہے کہ کم سے کم وہ تو سرفروشی کی راہ کو اختیار کریں گے, آج کل یہی ہورہا ہے, ہر کوئی بک رہا ہے, بی.جے.پی دام لگائے جارہی ہے, اور لوگ ردیوں کے بھاؤ بک رہے ہیں, اتنی تو کم اوقات نہیں تھی ان کی, مگر کیا ہی کرسکتے ہیں, جس طرح میڈیا کا کام ہوتا ہے اسٹیبلشمنٹ سے سوال پوچھنا, اسی طرح اقلیتوں کا بھی کام ہوتا ہے کہ اپنے اندر Resistance کو بھاؤنا کو جگانے رکھنا, اکثریت کے سامنے گھٹنے نہ ٹیک دینا, اپنی شناخت کو بچائے رکھنے کی ہر ممکنہ کوشش کرنا, کیونکہ ادھر جھکے, ادھر انہیں خوش کرنے کے لئے مندروں تک میں جھکنا پڑے گا, کیونکہ اصل گلہ تو آپ کی توحید پرستی سے ہی ہے, آپ کے محض ایک ہی دین کو صحیح سمجھنے سے ہی ہے.

نادانوں سے کیا گلہ کرنا, گلہ تو ان سے ہے کہ جن کے بارے میں سوچا جاتا تھا کہ یہی راہ دکھانے والے لوگ ہیں, یہی ظلمت و تاریکی میں روشنی کی طرف لے جانے والے ہیں, کہ جب سب ساتھ چھوڑ جائیں گے تو بھی یہ پامردی دکھلائیں گے, یہ جھکیں گے نہیں, یہ ٹوٹیں گے نہیں, مگر وہی لوگ پالا بدل رہے ہیں, وقت سے پہلے ہی ان پر خوف اس طرح طاری ہے کہ کبھی کسی دربار میں حاضری دے رہے ہیں, کبھی کسی دربار میں, اور ان کی تعداد ہے کہ دن بدن بڑھتی ہی جارہی ہے, میری مراد اکیڈمیشینز ہیں, پڑھے لکھے لوگ ہیں, کہ جن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو مدرسوں سے پڑھے ہیں اور عصری تعلیم یافتہ بھی ہیں, کہ جن کا فیلڈ اردو, عربی, اسلامیات یا دیگر سبجیکٹس ہیں, وہی لوگ بک رہے ہیں, اور شاید سب سے زیادہ بک رہے ہیں, باوجود یکے کہ وہ سب کچھ جانتے ہیں, وہ آر.ایس.ایس کی تاریخ سے واقف ہیں, جو بی.جے.پی کی مسلم دشمنی سے آشنا ہیں, مگر وہ ہیں کہ چاٹوکارِتا کی انتہا کو پار کئے جارہے ہیں, محض اس لئے کہ کہیں ان کو لیکچرر بنا دیا جائے گا, آر.ایس.ایس کی چھتر چھایہ کی وجہ سے جلد از جلد ان کا مستقبل سنور جائے گا, بکنے کی ایک عجب ہوڑ لگی ہوئی ہے, سامنے ذاتی مفاد ہے, مگر دلائل حکمت کے دئیے جارہے ہیں, امت کے حق میں ایک بہتر فیصلہ بتایا جارہا ہے, امت کے حق میں بہتر ہو نہ ہو, شاید ان کے ان کے حق میں ضرور بہتر ہوگا, کیونکہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ اکیڈمکس میں رومیلا تھاپر سے سی.وی طلب کیا جارہا ہے, اور للو پنجؤوں کو محض سیاسی چاٹوکارِتا کے بنا پر سیٹیں عنایت کی جارہی ہیں, سو صلاحیت تو اتنی بنائی نہیں, کہ اپنے راستے خود بنا سکیں, لے دے کے بس امت کی دہائی دے کر اپنے مفاد کے لئے راہیں ہموار کرنی ہیں.

جے.این.یو میں اسٹوڈنٹس کا الیکشن قریب ہے, اب کی بار کا منظر تھوڑا سا بدلا ہوا ہے, بہت سارے سو کالڈ مسلمان طلباء اے.بی.وی.پی کا پرچار کررہے ہیں, اور پرچار بھی اس جوش و خروش کے ساتھ کہ شاید اے.بی.وی.پی بھی اتنی جوش نہ دکھا پائے, بھارت ماتا کے نعروں کے ساتھ ساتھ راج تلک کی کرو تیاری, اب کی بار بھگوا دھاری جیسے نعروں تک, افف غیرت کہاں ہے؟ وجہ صرف اتنی ہے کہ آقاؤں کی نظر میں ثابت کیا جاسکے کہ کس قدر وفادار ہیں ہم آپ کے, آپ جلد از جلد ہمیں کوئی عہدہ دیجئے, کسی حقدار کا حق مارئیے, ہمیں جگہ عنایت کیجئے, جیسے کہ اس سے پہلے آپ نے فلاں فلاں کو عطا کیا, ان کی بے لوث وفاداری کے سبب, ورنہ وہ اس قابل نہ تھے کہ ان کو پروفیسرشپ عطا کی جاتی, سو جیسے وہ تھے, ویسے بھی ہیں, نظر کرم ہم پر کیجئے, نظر کرم ہوجائے گی, لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے, تاریخ پھر دہرائے گی, جیسے انگریزوں کی حمایتیوں کو آج غدار لکھا جارہا ہے, ویسے کل آر.ایس.ایس کے چاٹوکاروں کو بھی غدار لکھا جائے گا, اس وقت آپ کے بارے میں لکھا جائے گا کہ جب ایک آئی.ایس آفیسر صرف اس وجہ سے استعفی دے رہا تھا تاکہ کل کو یہ نہ اس سے پوچھا جائے کہ جب اسی لاکھ لوگوں پر زمین تنگ کردی گئی,تو آپ کیا کررہے تھے, اس وقت کچھ لوگ تھے جو تلوے چاٹ رہے تھے, نہایت مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے تھے, اپنے آقاؤں سے اتنی بھی گزارش نہیں کرپا رہے تھے کہ کم سے کم انسانیت کے ناطے ان لاکھوں لوگوں کو ایک دوسرے سے بات کرنے کی اجازت دے دی جائے.

کس خوش فہمی میں جی رہے ہیں لوگ, مذاکرات کرو, ضرور کرو, مگر ایک وقار کے ساتھ, اس میں عزت بھی ہو, اس میں اپنی شرطیں بھی ہوں, گر کر ذلالت کے ساتھ نہیں, دوسرے درجے کے شہری کے طور پر نہیں, آپ اس ملک کے اتنے ہی حقدار ہو جتنے وہ ہیں, کورس آف ایکشن بناؤ, ہر مسئلے کے لئے قانونی لڑائی لڑو, اگر آپ اس طرح مذاکرات پر راضی ہوجائیں گے کہ وہ جو چاہیں کریں, یا وہ جو کہیں آپ کریں, وہ کہیں تو آپ اپنے دین و ایمان کی فکر کئے بنا بھی غیر اسلامی نعرے لگائیں, وہ کہیں تو آپ مندروں میں بھی جھک جائیں, وہ کہیں تو آپ نہ کچھ دیکھیں, نہ کچھ سنیں, تو پھر آپ کس بنیاد پر ان لوگوں کو انگریزوں کا دلال یا غدار کہوگے جو ان کے ساتھ تھے, یا جنہوں نے جنگ آزادی میں حصہ لینے کے بجائے صلح کے راستے کو اپنایا, آخر آج جو مصلحت آپ کے سامنے ہے, کل ان کے بھی سامنے رہی ہوگی, آج اگر آپ کو لگتا ہے کہ آر.ایس.ایس کے ساتھ مل جانے میں ہی لانگ ٹرم میں بھلائی ہے, تو پھر انہیں بھی لگتا رہا ہوگا کہ انگریزوں کے ساتھ مل جل کر رہنے میں ہی بھلائی ہے, تو پھر یہ پندرہ اگست کی ڈھکوسلے بازیاں کیونکر؟ یہ مجاہدین آزادی کے واقعات سنا سنا کر جوش و جذبات سے لوگوں کو بھر دینا چہ معنی دارد؟ جب کہ آپ کے اندر مزاحمت کی ذرہ برابر بھی رمق نہیں؟ "شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی ہزار سالہ زندگی سے بہتر” جیسے محاوروں سے تو اپنی حق وراثت کو ترک کردینی چاہئے کہ جب آپ ظلم پر زبان کھولنا تو دور کی بات, اپنی خاموشیوں سے ظلم کی حمایت بھی کرتے ہیں.

تحریر:عزیر احمد ، نیو دہلی

Comments are closed.