یوکرین کی رکنِ پارلیمنٹ انا سوسون کے مطابق روسی بمباری سے مختلف شہروں میں رہائشی عمارتیں، اسٹیڈیم اور لائبریری کی عمارتیں تباہ ہوچکی ہیں۔انا سوسون نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر میں کہا کہ روس نے چرنیو شہر میں رہائشی اپارٹمنٹ اور لائبریری کو نشانہ بنایا ہے۔

انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں حملوں کے مقامات کی تصاویر کے ساتھ یہ معلومات بھی فراہم کی ہے کہ چرنیو میں 11 مارچ کو صبح سویرے 4 بچے ایک اسٹیڈٰم اور لائبریری متاثر ہوا ہے اور شہر میں پانی کی فراہمی بھی متاثر ہوئی ہے۔

انا سوسون نے چند اور تصاویر کے ساتھ یہ معلومات فراہم کی ہے کہ 60 اپارٹمنٹس پر مشتمل عمارت، مزید ایسی چار عمارتوں اور دس چھوٹی مکانوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔اس کے علاوہ دنیپرو اور لوتسک میں روس نے مزید حملہ کی ہے، لوتسک کے میئر نے ان دھماکوں کی تصدیق کی ہے۔

دنیپرو میں یوکرینی میڈیا نے تین دھماکوں کی تصدیق کی ہے، جس میں بظاہر ایک میں دو منزلہ جوتے بنانے کی فیکٹری کو نشانہ بنایا گیا ہے، دیگر دو دھماکوں میں سے ایک کئی منزلہ عمارت پر ہوا جن میں اپارٹمنٹس بنے ہوئے تھے اور ایک عمارت چھوٹے بچوں کے اسکول کی تھی۔

دوسری جانب آج کے حملے میں یوکرین میں لوتسک کی انتظامیہ کے سربراہ کا کہنا ہے روسی حملے میں دو یوکرینی سپاہی ہلاک ہو گئے جبکہ 6 افراد زحمی ہوگئے ہیں۔روس نے دعویٰ کیا کہ یوکرین کے مغربی شہر وان لوتسک اور لوینو فرینکسوسک میں فوجی ائیر فیلڈز کو نشانہ بنایا ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ماسکو کی درخواست پر یوکرین میں حیاتیاتی ہتھیاروں کی مبینہ تیاری کے معاملے پر جمعے کو ایک ہنگامی اجلاس منعقد کر رہی ہے۔ فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق چھ مارچ کو ماسکو کی وزارت خارجہ نے ٹویٹ میں کہا تھا کہ روسی افواج کو شواہد ملے ہیں کہ یوکرین کی حکومت فوج کی جانب سے چلائے گئے حیاتیاتی پروگرام کے نشانات کو مٹا رہے ہیں جس کی مالی اعانت مبینہ طور پر امریکہ نے فراہم کی تھی۔

 

 

امریکہ نے روس کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ روس کی جانب سے لگائے گئے یہ الزامات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ماسکو جلد ہی یہ ہتھیار یوکرین میں استعمال کر سکتا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے بدھ کو ایک بیان میں کہا ہے کہ ’کریملن جان بوجھ کر یہ جھوٹ پھیلا رہا ہے کہ امریکہ اور یوکرین، یوکرین میں کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کی سرگرمیاں کر رہے ہیں۔

فیس بک کی اپنی پالیسی میں عارضی طور پر نرمی دوسری جانب فیس بک نے کہا ہے کہ اس نے یوکرین پر ماسکو کے حملے کے بعد نفرت انگیز تقریر پر اپنی پالیسی میں عارضی طور پر نرمی کی ہے۔ فیس بک نے ’روسی حملہ آوروں کی موت‘ جیسے بیانات اپنے پلیٹ فارم پر شیئر کرنے کی اجازت تو دی ہے تاہم شہریوں کو دھمکیاں دینے سے روکا گیا ہے۔

ماسکو کے اپنے ہمسایہ ملک پر حملے نے نہ صرف مغربی حکومتوں اور کاروباری اداروں کو پابندیاں عائد کرنے کی ترغیب دی بلکہ اس جنگ میں سوشل میڈیا کے کردار پر بھی مباحثوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ فیس بک اور انسٹاگرام کی پیرنٹ کمپنی میٹا کی جانب سے پالیسی فیصلے کو فوری طور پر تنازع کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس نے اپنا دفاع کیا ہے۔

میٹا نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’یوکرین پر روسی حملے کے نتیجے میں ہم نے سیاسی اظہار رائے کی ان اقسام کی عارضی طور پر اجازت دی ہے جو عموماً ہمارے نفرت انگیز تقریر پر قوانین کے خلاف ہیں جیسے کہ ‘روسی حملہ آوروں کی موت۔’ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہم اب بھی روسی شہریوں کے خلاف کسی کو تشدد پر اکسانے کی اجازت نہیں دیں گے۔

ایک رپورٹ کے بعد سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ یہ پالیسی آرمینیا، آذربائیجان، ایسٹونیا، جارجیا، ہنگری، لٹویا، لتھوانیا، پولینڈ، رومانیہ، روس، سلوواکیہ اور یوکرین پر لاگو ہوتی ہے۔ ٹیک پلیٹ فارمز کو روس اور یوکرین کے تنازع میں اس وقت مسائل کا سامنا کرنا پڑا جب امریکی سینیٹر لنڈسے گراہم نے ٹیلی ویژن انٹرویو اور ٹوئٹر پر روسی صدر ولادیمیر پوتن کے قتل کا مطالبہ کیا تھا۔

گراہم کی تین مارچ کی ٹویٹ میں کہا گیا تھا کہ ’اس (جنگ) کے ختم ہونے کا واحد راستہ یہ ہے کہ روس میں کوئی شخص اس آدمی کو باہر لے جائے۔‘ لنڈسے گراہم کی اس ٹویٹ کو ٹوئٹر نے اپنے پلیٹ فارم سے نہیں ہٹایا تھا جس پر کافی تنقید ہوئی تھی۔

اٹلانٹک کونسل کی ڈیجیٹل فرانزک ریسرچ لیب کے ڈس انفارمیشن ماہر ایمرسن بروکنگ نے بتایا ہے کہ ’یہ پالیسی روسی فوجیوں کے خلاف تشدد کے مطالبات کے حوالے سے ہے۔ یہاں تشدد کی کال، ویسے بھی مزاحمت کی کال ہے کیونکہ یوکرینی ایک پرتشدد حملے کی مزاحمت کرتے ہیں۔‘ تاہم کچھ لوگوں نے اس پالیسی پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

لیہائی یونیورسٹی کے پروفیسر جیریمی لٹاؤ نے ٹویٹ میں طنز کرتے ہوئے لکھا کہ ’ہم نفرت انگیز تقریر کی اجازت نہیں دیتے سوائے کسی خاص ملک کے کچھ لوگوں کے خلاف۔‘ فیس بک اور دیگر امریکی ٹیک کمپنیاں یوکرین پر حملے کے بعد روس کو ’سزا‘ دینے کے لیے آگے بڑھی ہیں اور ماسکو نے معروف سوشل میڈیا نیٹ ورک کے ساتھ ساتھ ٹوئٹر تک رسائی کو روکنے کے لیے بھی اقدامات کیے ہیں

Shares: