مزید دیکھیں

مقبول

ریاکاری اور دکھاوا روح کے دشمن . تحریر: زہراء مرزا

ریاکاری بہت ساری خباثتوں کی ماں ہے، ممتاز نظر آنے کی دھن، خبروں میں رہنا، فضول خرچی، تکبر اور اس جیسے دیگر بیماریوں کی بنیادی وجہ ریاکاری ہے.

ممتاز نظر آنے کی دھن جب سر پر سوار ہو جائے تو انسان وہ کچھ بھی کر گزرتا ہے جو کوئی ذی شعور انسان سوچ بھی نہیں سکتا. انسان کی نفسیات پر یہ چیز اس قدر بری طرح اثرانداز ہوتی ہے کہ انسان اچھی سے اچھی چیز میں نقص نکالنے لگتا ہے. اپنے معاشرے اور اپنے ساتھ رہنے والے لوگوں سے الگ تھلگ ہو جاتا ہے. ممتاز نظر آنے کا بخار جب سر چڑھ جاتا ہے تو انسان اپنی تہذیب تمدن ثقافت کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کو بھی بائی پاس کر دیتا ہے. کسی فلم ڈرامہ یا ماڈرن سوسائٹی کا اثر لے کر آجکل لوگ منفرد نظر آنے کی خاطر انگریزی کے ایسے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں جو پنجابی یا اردو میں ادا کیے جائیں تو کسی بھی شخص کے لیے ناقابل برداشت ہوں، ایسا لباس ذیب تن کرتے ہیں کہ جو نہ تو ہماری معاشرتی روایات کا عکاس ہوتا ہے نہ ہی مذہبی، بلکہ بسا اوقات انسان ایک کارٹون کی مانند نظر آنے لگاتا. ایسا انسان اپنی ذات سے بھی مطمئن نہیں ہوتا. اور ہر وقت ایک ٹراما میں رہتا ہے.

ریاکاری ایک ایسی بیماری ہے جو آپکو فضول خرچ بناتی ہے.
میری گاڑی باقیوں سے اچھی ہو. میرا لباس میری بیٹھک، میری پارٹیز میری ڈریسنگ یہ سب ایسا ہونا چاہیے کہ دیکھنے والا عش عش کر اٹھے. اپنے الیٹ لائف سٹائل کو مینٹین کرنے کے لیے جب وسائل کم پڑتے ہیں تو انسان جائز و ناجائز کی تمیز کو بھولنا شروع کر دیتا ہے. چور رستوں سے رقم کما کر اپنا شملا بلند رکھنا اور خود کو امیر اور سپیریر مخلوق ثابت کرنا اس کی مجبوری ہوتی ہے. ریاکار شخص کو ہر وقت یہ اندیشہ رہتا ہے کہ کہیں اس کی ناک نہ لگ جائے. اپنی ناک بچانے کی سعی کرتے کرتے وہ رب کے عطا کردہ وسائل کا بے جا استعمال کرتا ہے. اور معاشرے کے کمزور طبقے کی حق تلفی کرتا ہے. ریاکار انسان جب فضول خرچی میں تجاوز کرتا ہے تو غریب انسان کی عزت نفس کو قتل کرتا ہے. معاشرے میں طبقاتی تقسیم کی وجہ بنتا ہے. یہ عوامل معاشرے کا شیرازہ بکھیر دیتے ہیں.

ریاکاری تکبر کی جانب لے جانے والی موٹر وے ہے. جونہی انسان ریاکاری کی جانب چلا اس کی منزل تکبر ٹھہرے گی. ایسا شخص اپنے سے زیادہ مالدار سے حسد اور اپنے سے کم مالدار سے نفرت کرنے لگتا ہے. تکبر کا مارا انسان ہمیشہ اپنے سے امیر اور زیادہ اثر والوں سے تعلق استوار کرتا ہے. تاکہ معاشرے میں اسے ممتاز سمجھا جائے. اور جب اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ ایک ممتاز شخصیت ہے تو وہ اپنے سے نیچلے طبقے کی نہ صرف تضحیک کرتا ہے بلکہ انہیں انسان سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے. ایسا فرد تکبر کی آگ میں اس قدر جلتا ہے کہ اپنے تمام تعلقات کو ختم کر دیتا ہے. اور تنہائی کا شکار ہو جاتا ہے. تکبر کا مارا شخص عزت دینے سے محروم ہو جاتا ہے. یوں ایسے شخص سے محنت کرنے والے کم ہو جاتے ہیں.

ریاکاری جب معاشرے کا چلن بننے لگے تو نفرتیں عام ہونے لگتی ہیں.، طبقاتی تقسیم کو ہوا ملتی ہے، کرائم ریشو بڑھنے لگتی ہے، اعتماد کی فضا ختم ہونے لگتی ہے. جہالت کے بادل گہرے ہونے لگتے ہیں.

اگر ہم معاشرے کو حقیقی معنوں میں تعمیر کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی ذات سے ریاکاری کو نکال پھینکنا ہوگا. ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہم ایک جیسے انسان ہیں، کسی کے غریب یا امیر ہونے میں اس کا کوئی کمال نہیں. ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ مالک کی تقسیم ہے. اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ آپ اہم یا دوسرے غیر اہم ہیں.

@zaramiirza