دنیا بھر میں سیاحت کا شعبہ سیر وتفریح ہی نہیں بلکہ اب موجودہ دور میں معیشت کا ایک پہیہ بن چکا ہے اور دنیا بھر میں ہر سال 27 ستمبر کو یوم سیاحت منایا جاتا ہے سیاحت کی وجہ سے ایک ملک کے شہریوں کو دوسرے ملک دیکھنے کا شوق اور موقع ملتا ہے سیاحت کے شعبہ میں سب سے پہلے سوئٹزرلینڈ آسٹریا مریکہ کی کچھ ریاستیں جرمنی فرانس برطانیہ جہاں پر سیر وتفریح کے مقامات کے علاوہ سیر وتفریح کی سہولیات دی جاتی ہیں جس سے زرمبادلہ کا تبادلہ مختلف ملکوں کے درمیان جڑا رہتا ہے پاکستان میں 80 کی دہائی کے بعد پاکستان کے شمالی علاقہ جات خیبر پختون خواہ کے علاقے سوات مالم جبہ چترال شانگلہ کوہستان گلیات کاغان ناران شوگران اور گلگت بلتستان کے خوبصورت مقامات غیر ملکی سیاحوں کی دریافت ہیں پنجاب میں بھوربن مری کیھوڑہ بہاولپور ڈیرہ غازی خان کے مقامات بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں
سیاحت ایک شوق ہی نہیں بلکہ کل وقتی صنعت ہے اس سے وابستہ افراد ہوٹل ٹرانسپورٹ ٹریولنگ ایجنسی اور خوراک کی سہولیات دیتے ہیں لاکھوں افراد کو روزگار ملتا ہے دوسرے ممالک کی طرح اب پاکستان میں بھی سیاحت ایک ادارہ بن کر فروغ پا رہی ہے جس میں حکومتی اور سماجی شراکت دار نہ خود مستفید ہوتے ہیں بلکہ دوسرے لوگوں کے کاروبار میں معاون کا کردار بھی ادا کرتے ہیں سیاحت انڈسٹری کی شکل اختیار کرنے کے بعد جہاں پر لاکھوں لوگ نہ صرف روزگار حاصل کرتے ہیں وہاں پر کروڑوں افراد سیر وسیاحت کرتے ہیں خن کیلئے ان سیاحتی مقامات پر
سرکاری یہ غیر سرکاری طور پر رہائش کھانا یہ ٹرانسپورٹ کے نرخنامے مقرر نہیں کیے جاتے جس کی وجہ سے ان سیاحوں سے سیاحتی انڈسٹری کا درجہ رکھنے والے افراد دگنا ریٹ وصول کرتے ہیں جس میں سیاحت کو کمی کا خطرہ ہے اس طرح سیاحتی ایریا جہاں پر خوبصورت مقامات موجود ہیں وہاں پر پختہ سڑکیں نہیں بنی ہوئی جس کی وجہ سے سیاحوں کو وہاں پہنچنا دشوار ہوتا ہے ایک طرف سیاحوں کو وہ مقامات دیکھنے کا موقع نہیں ملتا دوسری طرف ان ہی مقامات پر کھانے پینے یہ دیگر سہولیات کی فراہمی کے انتظامات نہ ہونے سے مقامی افراد بے روزگاری کا شکار ہیں اگر سیاحت کا دعوٰی سچ ثابت کرنا ہے تو حکومتوں کو ان مقامات کیلئے سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ان علاقوں کی طرف شعور اور آگاہی اجاگر کرنا اور ٹیکس کی شرائط ختم کرنا ہوں گی کاغان ویلی میں اب بھی پہاڑوں پہ کئ ایسی جھیلیں موجود ہیں جہاں پہ سیاح یہ مقامی افراد نہیں جا سکتے ہیں اس ویلی کی سب سے خوبصورت جھیل دودی پت سر پہ جانے کیلئے آپ کو دو دن پیدل ٹریک پر سفر کرنا پڑتا ہے بابو سر ٹاپ کے پاس دو خوبصورت جھیلیں موجود ہیں دھرم سر جھیل اور سمبک سر جھیل جن پر سیاح اپنی فیملیز کے ساتھ نہیں جا سکتے وہاں پر کئ بار سیاحوں کے ساتھ لوٹ مار کے واقعات رونما ہوئے ہیں یہ علاقہ سال میں صرف پانچ مہینے کھلا رہتا ہے باقی برفباری کی وجہ سے سارا سال بند رہتا ہے اور یہی شاہراہ گلگت تک جاتی ہے صوبائی حکومت کو چاہیئے اس راستے پر پولیس چوکیاں قائم کی جائیں تا کے سیاح اور مقامی افراد بھی بغیر کسی خوف خطرے دن رات سفر کر سکیں یہ مقامی لوگوں کیلئے بہت فائدے مند ثابت ہو گا کیونکہ مقامی آبادی ٹورازم سے وابستہ ہے اور اس سے مقامی لوگوں کیلئے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے گزشتہ دنوں جب وزیراعظم پاکستان عمران خان صاحب ناران تشریف لائے تھے تو انھوں نے بھی ٹورازم کو پروموٹ کرنے کی بات کی تھی جو کچھ حد تک درست ثابت ہوئ جن میں کاغان ویلی سے اب جنگلات کا کٹاو ختم کر دیا گیا ہے جبکہ اس سے پہلے بے دریغ جنگل سے لکڑی کاٹ کے سمگل کی جاتی تھی ٹراوٹ فش جو دریائے کنہار کی ایک نایاب سوغات ہے اور بلکل ختم ہونے کے قریب تھی اس کے شکار پر بھی پابندی لگائ گئ اور شکار کرنے والوں کو جرمانے اور سزائیں دی گی پاکستان میں دنیا کے خوبصورت ترین پہاڑ اور ان پہاڑوں پہ چار موسم اور خوبصورت جنگلات لہلہاتے کھیت اور درجنوں آبشار کھلے میدان اور پرانے قلعے سیاحت کے حب ہیں ضرورت اس امر کی ہے ان سیاحتی مقامات تک رسائی قمیتوں میں کمی اور سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے
@SaadAkram_9 twiter handle