"صبر” کے معنی ہیں کسی خوشی، مُصیبت، غم اور پریشانی وغیرہ کے وقت میں خود کو قابو میں رکھنا اور خلاف شریعت کاموں سے بچنا۔
روزمرہ کی زندگی میں، ہم میں صبر ناں ہونے کے برابر ہے، کامیابی کا حصول ہی یہی ہے کہ صبر وتحمل سے کام لیا ۔
صبر ایک ایسا عظیم اور اعلیٰ فضیلت والا عمل ہے جس کو اللہ تعالٰیٰ نے اپنے نبیوں اور رسولوں علیہم الصلاۃ و السلام کی صفات میں تعریف کرتے ہوئے بیان فرمایا
”وَإِسمَاعِیلَ وَإِدرِیسَ وَذَا الکِفلِ کُلٌّ مِّنَ الصَّابِرِینَ
اور اِسماعیل اور اِدریس اور ذاالکِفل سب ہی صبر کرنے والوں میں سے تھے۔
اور اس صبرکو ایک نیک عمل قرار فرماتے ہوئے اُس کا پھل یہ بتایا، إِنَّمَا الصَّبر عِندَ الصّدمۃ الأولیٰ
بے شک صبر (تو وہ ہے جو) کسی صدمے کی ابتداء میں کیا جائے۔
اور اللہ تبارک و تعالٰیٰ نے اپنے آخری رسول حضرت مُحمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو یہ بتایا کہ یہ عظیم کام بہت بُلند حوصلہ رسولوں کی صفات میں رہا ہے اور اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُس کام کا حکم فرمایا:
فَاصبِر کَمَا صَبَرَ أُولُوا العَزمِ مِنَ الرُّسُلِ
اور (اے مُحمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ بھی اُسی طرح صبر فرمایے جس طرح (آپ سے پہلے )حوصلہ مند رسولوں نے فرمایا۔
ابوموسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
طہارت ایمان کا حصہ ہے اور الحمداللہ (کہنا) میزان(ترازو) کو بھر دیتا ہے اور سبحان اللہ اور الحمد اللہ (کہنا) آسمانوں اور زمین کے درمیان کو بھر دیتا ہے اور نماز روشنی ہے، اور صدقہ واضح دلیل ہے، اور صبر چمک ہے، اور قُرآن حجت ہے( یا خود ) تمہارے لیے (یاخود) تمہارے خِلاف ہر انسان نے کل کو جانا ہے اور اپنی جان کو بیچنا ہے تو کوئی تو اپنی جان کو چُھڑانے والا ہے اور کوئی اس کو ہلاک کرنے والا۔
سورۂ یوسف کی آ یت نمبر 89 کو غور سے پڑھا تو آ نکھیں حیرت سے کھل گئیں اور حضرت یوسف علیہ السلام کے ظرف کو دیکھ کر بے اختیار خیال آ یاکہ انسان ایسا بھی ہوسکتا ہے جن بھایئوں نے بچپن میں باپ سے الگ کر دیا اور مصر کے بازار میں بولی لگائی گئی جیل میں الزام لگا کر قید کر دیا۔ مگر جب بھائیوں سے ملاقات ہوئی تو انھیں شرمندہ نہ ہونے دیا اور سزا دینے کی قدرت رکھنے کے باوجود بولے بھی تو کیا؟ کہ کیا تم جانتے ہو کہ نادانی میں تم نے یوسف اور اسکے بھائی کے ساتھ کیا کیا؟ سبحان اللہ کیا اس سے بڑا اخلاق کا مظاہرہ ہوسکتا ہے؟ نادانی کرنے کی عمر تو حضرت یوسف علیہ السلام کی تھی اور بھائی تو صاحب عقل تھے ۔ یہ حضرت یوسف علیہ السلام کا اخلاق تھا کہ بھائیوں کو نظریں نہ جھکانی پڑیں ھم اکثر ایک فقرہ بولتے ہیں کہ ” غلط بات برداشت نہیں مجھے” حالانکہ غلط بات پر ہی تو ہماری برداشت دیکھتا ھے اللہ تعالیٰ آیا کہ ہم میں صبر ھے کہ نھیں کیا ہم صبر کر کے جنت کے راستے کے مسافر بن سکتے ہیں کہ نہیں؟ ایک انسان ہونے کے ناطے صبر کرنا سیکھیں اور اپنا اخلاق ایسا بنائیں کہ ہم موت کے وقت لقب حاصل کر سکیں۔
"اے اطمینان پانے والی روح”
.اللّٰه والوں کی صحبت کی برکت ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺟﻼﻝ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺭﻭﻣﯽ ﺭﺣﻤﺔ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ :
ﺍﯾﮏ ﮐﺎﻧﭩﺎ ﺭﻭﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺎﮎ ﺳﮯ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺻﻠﺤﺎﺀ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﺳﮯ ﺳﻨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺳﺘﺎﺭ ﺍﻟﻌﯿﻮﺏ ﮨﮯ ﯾﻌﻨﯽ ﻋﯿﺒﻮﮞ ﮐﻮ ﭼﮭﭙﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﻟﯿﮑﻦ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻮ ﮐﺎﻧﭩﺎ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﻋﯿﺐ ﮐﻮﻥ ﭼﮭﭙﺎﺋﮯ ﮔﺎ؟
ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺭﻭﻣﯽ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ :
ﺍﺱ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﺣﺎﻝ ﮐﯽ ﺩﻋﺎ ﭘﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﭘﮭﻮﻝ ﮐﯽ ﭘﻨﮑﮭﮍﯼ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﺩﯼ ﺗﺎﮐﮧ ﻭﮦ ﭘﮭﻮﻝ ﮐﮯ ﺩﺍﻣﻦ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﻣﻨﮧ ﭼﮭﭙﺎﻟﮯ ﺑﺘﺎﺋﯿﮯ ﮔﻼﺏ ﮐﮯ ﭘﮭﻮﻝ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﮐﺎﻧﭩﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ؟
ﻣﮕﺮ ﺑﺎﻏﺒﺎﻥ ﺍﻥ ﮐﺎﻧﭩﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﺎﻍ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﻧﮑﺎﻟﺘﺎ , ﺑﺎﻍ ﺳﮯ ﺻﺮﻑ ﻭﮦ ﮐﺎﻧﭩﮯ ﻧﮑﺎﻟﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺧﺎﻟﺺ ﮐﺎﻧﭩﮯ ﮨﻮﮞ ﺟﻨﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﺴﯽ ﭘﮭﻮﻝ ﮐﮯ ﺩﺍﻣﻦ ﻣﯿﮟ ﭘﻨﺎﮦ نہ ﻟﯽ ہو،
ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺟﻮ لوگ ﺍﻟﻠﮧ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﮍﺗﮯ ﺍﻥ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺗﻮ ﺧﻄﺮﮦ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺟﻮ ﮔﻨﮩﮕﺎﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺍﻣﻦ ﺳﮯ
ﺟﮍ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺑﺮﮐﺖ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ
ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﻦ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ،
ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﮐﺎﻧﭩﮯ ﺗﻮ ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺍﻣﻦ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻧﭩﮯ ﮨﯽ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻟﻠﮧ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﭘﮭﻮﻝ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺻﺤﺒﺖ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﺎﻧﭩﮯ ﺑﮭﯽ ﭘﮭﻮﻝ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
@khubaibmkf








