لاہور ہائیکورٹ میں سابق آئی جی شعیب دستگیر اور سی سی پی او کے تبادلے کیخلاف درخواست پر سماعت ۔عدالت نے درخواست پر سماعت بغیر کسی کاروائی کےغیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی ۔عدالت کی مصروفیات کی بنا پر درخواست پر سماعت نہ ہو سکی
چیف جسٹس محمد قاسم خان نے لیگی رہنماء ملک محمد احمد خان کی درخواست پر سماعت کی ، درخواست میں وفاقی اورپنجاب حکومت کوفریق بنایاگیاہےدرخواست میں شعیب دستگیر، انعام غنی، ذوالفقارحمیداور عمرشیخ کو بھی فریق بنایا گیا ہےدرخواستگزار نے کہا کہ پنجاب میں پولیس کے تبادلے پولیس آرڈر 2002 کےمطابق نہیں ہورہے۔
آئی جی اور سی سی پی او کے تبادلے سیاسی بنیاوں پر کئے جا رہے ہیں،
درخواست میں سابق آئی جیز اورسابق سی سی پی اوز کی تعیناتیوں کابھی ذکرکیاگیا ہےکلیم امام 14 جون 2018ء سے 8 ستمبر 2018 ء تک صرف 3 ماہ تعینات رہے،
محمد طاہر 8 ستمبر 2018ء سے 15 اکتوبر 2018ء تک صرف ایک ماہ تعینات رہے،امجد جاوید سلیمی 15 اکتوبر 2018ء سے15اپریل2019ء تک 6ماہ تعینات رہے،کیپٹن (ر) عارف نواز 15 اپریل 2019ء سے نومبر 2019 تک7ماہ تعینات رہے،شعیب دستگیرکو بھی 8 ماہ کے بعد تبدیل کردیاگیا،
کسی بھی آئی جی کی تعیناتی کا عرصہ پولیس آرڈر 2002ء کےتحت پورا نہیں کیاگیا،بی اے ناصر 21 جون 2018ء سے 29 نومبر 2019ء تک تعینات رہے،
ذوالفقارحمید 30 نومبر 2019ء سے 31 اگست 2020ء تک صرف 9ماہ تعینات رہے، تعیناتی کاعرصہ پورانہ کرنے والےآئی جی کے تبادلےکا اقدام کالعدم کیاجائے،
نئے آئی جی انعام غنی اور سی سی پی عمر شیخ کی تقرری غیر قانونی قرار دی جائے،