سابقہ حکومت کا بوریا بستر گول کرنے کا زمہ دار بیرونی سازش نہیں بلکہ خود عمران کی مایوس کن کارکردگی ہے

0
46

پاکستان اس وقت ’’آڈیو لیکس‘‘ کے دور سے گزر رہا ہے۔ پہلے وزیراعظم شہباز شریف کی آڈیوز لیک ہوئیں اور اب عمران خان اس کی زد میں ہیں۔ شہباز شریف کی آڈیو لیک ہونے سے پریشانی کے شکار حکومتی وزرا نے عمران خان کی آڈیو لیک ہونے سے کچھ سکھ کا سانس لیا ہے اور تازہ دم ہوکر میدان میں اتر آئے ہیں۔ اب جملوں کے نشتر اور تنقید کے تیروں کا رخ عمران خان کی طرف ہوگیا ہے.

حکومت اس آڈیو لیک کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عمران خان کے بیانیے کا توڑ کرنے میں مصروف ہے کہ سابق حکومت کا بوریا بستر گول کرنے میں کوئی بیرونی سازش نہیں بلکہ خود عمران خان کی مایوس کن کارکردگی ہے۔ آڈیو لیکس اور اقتدار کی اس کشمکش میں ملک کس خطرناک موڑ پر پہنچ چکا ہے اور قومی سلامتی کے معاملات کتنی بری طرح متاثر ہورہے ہیں اس کا ادراک نہ حکومت کو ہے اور نہ عمران خان سمجھنے کو تیار ہیں۔ یہ سب کچھ اتنا نیا بھی نہیں۔ لگتا ہے ملکی سیاست کولہو کے بیل کی طرح ایک ہی دائرے میں مسلسل گھومے جارہی ہے اور حکمرانوں کی میوزیکل چیئر ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔

یہ تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں کسی وزیراعظم نے اپنے عہدے کی میعاد مکمل نہیں کی۔ کبھی قتل کردیے گئے، کبھی سولی پر لٹکا دیے گئے، کبھی آئین کے ایک آرٹیکل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صدر مملکت، جمہوری وزیراعظم کا بستر گول کردیتے تو کبھی ملک میں مارشل لا نافذ ہوتا اور یہ سب کرنا ممکن نہ رہتا تو عدالتی نااہلی کی تلوار یہ معرکہ سر کرلیتی۔ ایکسپریس کے ایک مضمون کے مطابق: پیپلز پارٹی کی چیئرمین بے نظیر بھٹو دو بار، جب کہ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف تین بار وزیراعظم بن چکے ہیں اور ہر بار یہ دونوں عہدے کی میعاد مکمل ہونے سے پہلے گھر بھیج دیے گئے۔

مزید یہ بھی پڑھیں؛ کسان اتحاد دھرنا: وفاقی حکومت ہمیں فی یونٹ کی قیمت مختص کرکے دے تب احتجاج ختم کریں گے
کرنسی مارکیٹس میں امریکی ڈالر مسلسل چھٹے روز سستا
اسلام آباد ایئرپورٹ ملازمین کام کرنے کو تیار نہیں،وزیر ہوا بازی کا سینیٹ میں انکشاف

حال ہی میں صوبہ پنجاب کے ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے میں طلبا سے خطاب کے دوران عمران خان کے ایک سوال کے جواب میں ’’نیوٹرل نیوٹرل‘‘ کے نعرے بلند ہونے سے صاف نظر آتا ہے کہ یہ خطرناک بیانیہ کس حد تک ذہنوں کو پراگندہ کرچکا ہے۔ دوسری جانب اسحاق ڈار کی وطن واپسی پی ٹی آئی کافی تنقید کررہی ہے لیکن حکومت اسے اپنی کامیابی قرار دے رہی ہے لہذا پاکستانی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، اس کا فیصلہ اکتوبر تک ہوجائے گا اور تب تک تناؤ، ہیجان اور کشیدگی کے اس کھیل میں وہی کھلاڑی میدان میں کھڑا رہے گا جو اعصابی طور پر مضبوط ہوگا۔

Leave a reply