قارئین محترم یہ جملہ کہنے کو تو ایک فلم کے گانے کا مصرعہ ہے مگر ہم پاکستانیوں کی ضرورت اور ضرورت بھی ایسی کہ جسکے پورا نہ ہونے کے بعد مرگ مفاجات کا سامنا یقینی ہے.
ہم پاکستان کے شہری محرومیوں کے ڈھیر تلے دبے ٹیڑھی کمر کے ساتھ جوان ہوتے ہیں.اور جگاڑ کرتے کرتے منوں مٹی تلے جا سوتے ہیں.
کیا وجہ ہے کہ ہم اس ڈھیر سے ابھر نہیں پاتے؟
ہم اپنے حقوق سے نا آشنا ہونے کی پاداش میں یہ سزا پا رہے ہیں.
ہم نے کبھی اپنے حقوق کا ادراک کرنے کی سعی کی ہی نہیں.
مثال کے طور پہ ہمارے ووٹ کی قیمت سڑک بنوانا گلی بنانا یا نالی بنوانا طے کی جاتی ہے.جو کہ حکومت کا فرض اور ہمارا حق ہے.
اسی طرح تعلیم و صحت ، کھیل، کاروبار ملازمت کی فراہمی حکومت کا فرض اور ہمارا حق ہے.
ہم وہ محروم قوم ہیں جن سے انکے میٹھے پھل تک چھین کر زرمبادلہ کی آڑ میں بیرون ملک بھجوا دیے جاتے ہیں.
اگر سوچا جائے تو ہمارے پھل منگوانے والے ممالک اپنی عوام کو بہترین کھلانے کے تگ و دو میں ہیں .
اس محرومی کی وجہ حکومتوں کو ٹھہرانا ایسا ہی ہے جیسا کہ آنکھیں بند کر کے چلتے ہوئے دیوار سے ٹکرانا اور الزام دیوار کو دینا.
حقوق سے آگاہی کے ساتھ ایک کام جو ہم سب کو قومی فریضہ سمجھ کر کرنا ہوگا
ہمیں ڈٹ جانا ہوگا اپنے حق کے لیے
ووٹ کے بدلے چالیس سالوں سے صرف نالیاں گلیاں ہی نہیں.تعلیم صحت کاروبار روزگار بھی چاہیے.
نمائندے ایوانوں میں ہمارے مسائل حل کرنے بیٹھتے ہیں لاکھوں کا خرچ کر کے ایک اجلاس کرتے اور ایک دوسرے پہ جگتیں کس کے قیمتی کاغذ پھاڑ کر لاکھوں کا نقصان کر آتے.
اب جب اجلاس میں ایسا ہو تو گریبانوں تک ہاتھ پہنچیں بھئ جس کام کے لیے ایوانوں میں خرچ کیا وہ کیا ہوا.قانون سازی کی ؟ نہیں تو جو ہمارا پیسہ خرچ ہوا اسکا حساب دو.
اب گلی گلی نگر نگر یہ نعرہ گونجنا چاہیے کہ
ساڈا حق ایتھے رکھ