پاکستان کو آزاد ہوئے 73 سال ہو گئے ہیں، پاکستان برطانوی تسلط سے آزاد ہوا تو دیگر ریاستوں کی طرح ہم نے بھی برطانیہ کا جمہوری نظام ملک میں لاگو کر دیا گیا۔
پاکستان میں عملی طور پر صدارتی نظام ایوب خان کے دور میں سن 1958 میں آیا پھر اس کے بعد 1977 میں جنرل ضیا کے دور اور 1999 کے مشرف دور کو بھی صدارتی نظام کہہ سکتے ہیں یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کے اگر ملک پاکستان کی ترقی دیکھیں اور ملک کی خوشحالی کے منصوبے دیکھیں تو وہ ادوار آپ کو سب سے آگے نظر آتے ہیں جن میں صدارتی نظام حکومت تھا اگر قانونی طور پر نہیں بھی تھا تو عملی طور پر تو تھا ہی۔
کیا وجہ ہے کے صدارتی نظام حکومت اتنا کامیاب ہے ؟ کیا وجہ ہے کے دنیا کے وہ ممالک جو ترقی کر رہے ہیں ان میں صدارتی نظام حکومت رائج ہے مثال چین کی لیں یا روس کی یا پھر امریکہ،ترکی وغیرہ کی ان سب ممالک میں صدارتی نظام حکومت ہے، لیکن ہمارے ملک میں جمہوریت کا چورن بیچا جاتا یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کے ملک کی عوام کا فائدہ کس نظام میں جمہوریت کے نام پر ہر کوئی اپنا الو سیدھا کرتا ہے اور یہ الو سیدھا کرنے میں ہمارے ٹی وی چینل سیاستدانوں کا ساتھ دیتے ہیں۔
پاکستان میں اسوقت پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے جسے اپنے پاؤں جمانے میں ڈیڑھ سال سے زیادہ کا عرصہ لگا گیا اس کی وجہ کیا تھی ؟
یہ سمجھنا بہت آسان ہے کے اس نظام میں جب بھی کوئی حکومت آتی ہے تو وہ اپنے لوگ ملک کے ہر ادارے میں بیٹھا دیتے ہیں چاہے وہ عدلیہ ہو بیوروکریسی ہو یا دیگر ادارے پھر بوقت ضرورت ان لوگوں سے کام لیتے ہیں اور یہی کچھ عمران خان حکومت کے خلاف کیا گیا۔
جمہوری نظام میں وزیراعظم کے پاس سب اختیارات ہوتے ہیں وہ پارلیمنٹ سے ایم این ایز کے ووٹ لے کر آتا ہے جن ایم این ایز کو عوام منتخب کرتی ہے۔
وزیراعظم بننے کے لئے اگر اپنی جماعت کی اکثریت نہ ہو تو منتخب ہونے کے لئے دوسری جماعتوں کی شرائط ماننا پڑتی ہیں جیسے عمران خان کو بھی ماننا پڑی۔
جبکہ صدارتی نظام میں صدر کا انتخاب پورے ملک کی عوام کرتی ہے۔ اصل میں جمہوری نظام یہی ہے، اس میں صدر کے پاس اختیارات بہت زیادہ ہوتے ہیں، صدر اپنی مرضی کی ٹیم لے کر آ سکتا ہے وہ کسی بلیک میلنگ کا شکار نہیں ہوتا وہ ملک بھر سے قابل لوگ لا کر انہیں اپنی ٹیم میں شامل کر سکتا ہے جب کے جمہوری پارلیمانی نظام میں اسے ہر طرح کی مفاہمت کرنی پڑتی ہے۔
صدارتی نظام میں سربراہ مملکت کو اس بات کی آذادی ہوتی ہے کے وہ پورے ملک سے قابل لوگ اپنی کابینہ کا حصہ بنا سکتا ہے اور صحیح جگہ پر صحیح بندے کو زمہ داری دے سکتا ہے۔
صدارتی نظام حکومت میں کام جلدی ہو پاتے ہیں کیونکہ اس میں رکاوٹیں ڈالنے والے عناصر ختم ہو جاتے ہیں اس لئی یہ نظام ڈلیور کر پاتا ہے اور حکمران جو عوام سے وعدے کر کے آتا ہے اسے عملی شکل دے پاتا ہے، جبکہ پارلیمانی نظام میں کسی بھی ترقیاتی منصوبے میں رکاوٹیں ڈالنے کے لئے کئی ادارے بیٹھے ہوتے اور فائل کو قانونی طور پر کئی کئی ماہ روک کر رکھتے ہیں۔
صدارتی نظام میں قانون ساز اسمبلی اور صدر کے اپنے اپنے اختیارات ہیں اور دونوں ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کرتے ہیں۔
جمہوری نظام میں چونکہ سارے کاموں کا دارومدار پارلیمنٹ اور ان کے ممبران پر ہوتا ہے اس لئے اگر وہاں کوئی ایسی حکومت آ جائے جس کی دو تہائی اکثریت نہ ہو تو اس حکومت کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اس طرح عوام کی فلاح کی پرجیکٹس بس فائلوں تک رہ جاتے ہیں حکومت ایک بعد دوسری آ جاتی ہے لیکن پراجیکٹ مکمل نہیں ہوتا۔
اس کے علاوہ صدارتی نظام حکومت ایک مضبوط نظام حکومت ہے جبکہ پارلیمانی نظام میں اگر آپ کے ساتھ اتحادی جماعتیں کسی بھی وجہ سے کسی اختلاف کی وجہ سے اپوزیشن کے ساتھ مل جائیں تو ووٹ آف نو کانفیڈنس سے آپ کی حکومت چند گھنٹوں میں ختم ہوسکتی ہے، اوریہ تلوار ہر وقت آپ کے سر پر لٹکتی رہتی ہے۔
دنیا بہت آگے بڑھ گئی ہے اگر دنیا کی رفتار سے ترقی کرنی ہے یا ان کا مقابلہ کرنا ہے تو روایتی طریقوں سے یہ نہیں ہوگا
ضرورت اس بات کی ہے سول سوسائٹی،نوجوان نسل اور ہمارے آنے والے مستقبل طلبا میں اس بات پر ہم آہنگی پیدا کی جائے کے پاکستان کی بہتری کے لئے صدارتی نظام کے حق میں ایک منظم مہم شروع کی جائے اور اسے ایک تحریک بنایا جائے تاکہ آنے والے سالوں میں ہم یہ نظام حکومت تبدیل کر سکیں یہ مطالبہ جب عوام کا مطالبہ بنے گا تو کوئی بھی سیاسی جماعت اس کے راستے میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتی، لیکن اس کے لئے ہماری نوجوان نسل کو مستقل مزاجی سے کام کرنا ہوگا۔
اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
پاکستان زندہ باد
@nomysahir