سفر آخرت کی گھنٹی، تحریر ✍🏻 ام حمزہ
سفر آخرت کی گھنٹی
تحریر ✍🏻 ام حمزہ
2 جولائی بروز جمعرات شام 7 بجے میں مرکز طیبہ کے العزیز ہسپتال میں ام سمیع اللہ کے گھر ان کے پاس بیٹھی ہوئی تھی جب سے اختر صاحب اللہ کو پیارے ہوئے میں پہلی مرتبہ ام سمیع اللہ کو ملنے گئی تھی اختر صاحب ام سمیع اللہ کے شوہر تھے
حال احوال پوچھنے کے بعد اختر بھائی کی ناگہانی موت کا تذکرہ شروع ہوا ابھی 5 منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ مجھے میرے بیٹے ابوبکر کی کال آگئی میں نے کال سنی تو کہنے لگا امی جان فائزہ کی امی فوت ہو گئی ہیں، فائزہ میری بڑی بہو ہے
انا للہ وانا الیہ راجعون کہا اور پوچھا جنازہ کب ہے کہنے لگا عشاء کے بعد 9 بجے ہم نے مریدکے سے پسرور جانا تھا کم از کم 2 گھنٹے کا سفر تھا میں پریشان ہو گئی ابھی کال اور اتنی جلدی جنازہ
خیر جلدی جلدی رینٹ والے بھائی کو کال کی کہ اپنی گاڑی لے کر جلدی آجائیں ہم نے پسرور فوتگی پہ جانا ہے
جنازے میں ٹائم بہت کم ہے فوراََ آجائیں
گھر آکر بچوں کو تیار کیا
فائزہ رو رہی تھی کہ ابھی تو میں نے صبح امی سے بات کی تھی اور کل میں نے ماں کو ملنے جانا تھا مجھے کیا پتہ تھا کہ میں ماں کو مل ہی نہیں پاؤنگی اور بھاگم بھاگ آج ہی مجھے ماں کا جنازہ پڑھنے جانا پڑے گا
خیر ہم 9 بجے تک پسرور پہنچ گئے
جو بیٹیاں قریب تھیں وہ ہم سے پہلے پہنچ چکی تھیں اور انھوں نے غسل دے کر ماں کو آخری سفر کے لئے تیار کر دیا تھا
عزیز واقارب 6 بیٹیاں اور 3 بہو ماں کو دیکھ دیکھ کر آنسو بہا رہی تھیں لیکن بے بس تھیں
جنازے کا ٹائم ہو چکا تھا بیٹے اور داماد آئے اور ماں کی میت والی چار پائی کو اٹھا کر اس کے اصلی گھر اسے خالی ہاتھ تین چادروں میں لے جا کر رات کے گھپ اندھیرے میں شہر خاموشاں میں چھوڑ آئے
اللہ تعالیٰ ہماری اس بہن کی مغفرت فرمائے اس کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے اور اسے کروٹ کروٹ جنت الفردوس عطا فرمائے آمین ثم آمین
ایسے ہی عیدالفطر والے دن ہم ابھی عید کی نماز پڑھ کر گھر آئے ہی تھے تو مجھے 9 بجے وزیر آباد سے میرے بھائی کی کال آگئی کہ شمائلہ فوت ہو گئی ہے
اور 11 بجے اس کا جنازہ ہے
شمائلہ میری بھتیجی تھی
مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ میرے کان کیا سن رہے ہیں میں نے کہا بھائی کیا کہہ رہے ہیں
کہنے لگے سچ کہہ رہا ہوں
یہ خبر میرے اوپر بجلی بن کر گری
میں نے کہا ہم ابھی آرہے ہیں کہنے لگے نہیں آنا
کرونا سے فوت ہوئی ہے ہم نے سب کو روک دیا ہے کوئی نہ آئے ہم بھی باہر قبرستان میں ہی جا رہے ہیں
دفن کرنے کے بعد بھائی کی کال دوبارہ آئی کہ اب آپ آجائیں
دل پھٹا جارہا تھا کہ میں اپنی لاڈلی کو دیکھ بھی نہیں سکی اور غسل بھی نہیں دے سکی ( ماں اور بیٹیوں نے غسل دیا تھا )
اللہ اکبر کبیرہ یہ ہے ہماری زندگی کی حقیقت
بعد میں گھر پہنچے تو شمائلہ کی امی 4 بیٹیاں اور 2 بیٹے رو رہے تھے کہ اےاللہ ہم نے سارا رمضان روزے رکھے نمازیں پڑھیں قرآن پڑھا عبادتیں کیں ہماری ماں نے بھی کیں اللہ تو اس کا صلہ عید والے دن دیتا ہے
اے ہمارے پیارے اللہ تو نے اس کا صلہ عید والے دن ہمیں یہ دیا کہ ہم سے ہماری ماں کو جدا کر کے ہمیشہ کے لئے اپنے پاس بلا لیا
یہ تو بچے ہیں ناں جو اپنے اللہ جی سے شکوہ کر رہے ہیں
اے میرے مالک تیری مرضیاں
تیری حکمتیں تو ہی جانے جیسے تو چاہے کرے تجھے کون پوچھنے والا ہے
ہم تیری رضا پہ راضی ہیں
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ میری شمائلہ کی مغفرت فرمائے اس کے درجات بلند کرے اس کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے اور اس کی قبر کو جنت کا باغیچہ بنا دے اور اس کے بچوں کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین ثم آمین
آنے جانے کا کھیل جاری ہے
کوئی کیاجانے اب کس کی باری ہے
سر پہ منڈلا رہا ہے ملک الموت
دل میں موت کا خوف طاری ہے
آخر کار ہم سب جدا ہونگے
چار دن کی یہ رشتہ داری ہے
یوں تو بہت میٹھا ہے جام حیات
مگر آخری گھونٹ اس کا کھاری ہے
موت کی آخری ہچکی کو ذرا غور سے سن
زندگی بھر کا خلاصہ اسی آواز میں ہے
کل نفس ذائقۃ الموت
میری عزیزات یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ اس سے کسی صورت انکار ممکن نہیں
جب ایسا ہی ہے توپھر ہم نے کبھی غور کیا کہ میرے پاس سفر آخرت کی کیا تیاری ہے؟؟
ہمارا رب سورۃ آل عمران میں فرماتا ہے
ہر جان موت کو چکھنے والی ہے اور تمھیں قیامت کے دن تمھارے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا
پس جو شخص دوزخ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کر دیا گیا تو وہ کامیاب ہوگیا اور یہ دنیا کی زندگی تو محض دھوکے کا سامان ہے
آیت نمبر 185
یعنی موت تو ہر ایک کو آکر رہے گی اور ہر ایک کو قیامت کے دن اعمال کا بدلہ مل کر رہے گا
عزیزات یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے اس میں جو چیز بوئیں گے وہی کل کو کاٹیں گے عذاب و ثواب مرنے کے ساتھ ہی عالم برزخ میں شروع ہو جاتا ہے اور کامیابی کا معیار یہ ہے کہ انسان دوزخ کے عذاب سے بچ جائے اور جنت میں داخل ہو جائے
اس دنیا کی عارضی بہاریں اور ظاہری زیب وزینت میں اتنی کشش ہے اور اتنی پر فریب ہے جس میں مگن ہو کر انسان بسا اوقات آخرت سے غافل ہو جاتا ہے اور غافل رہتا ہے یہاں تک کہ موت آ جاتی ہے. تب اس کی آنکھیں کھلتی ہیں کہ مجھے دنیا میں رہ کر کرنا کیا چاہئے تھا اور میں کرتا کیا رہا
اب پچھتاوے کیا ہوت
جب چڑیاں چگ گئیں کھیت
عزیزات یہ دنیا ہر انسان کے لئے دار الامتحان ہے اس کی زندگی عیش وعشرت میں گزر رہی ہو یا تنگی ترشی میں وہ خود صحت مند ہو یا بیمار ہو عالم ہو یا نادان غرضیکہ انسان کی کوئی بھی حالت ہو وہ امتحانی دور سے گزر رہا ہے
امتحانی پرچے کا آخری وقت اس کی موت ہے موت کے ساتھ ہی اسے از خود معلوم ہو جائے گا کہ وہ اس امتحان میں کامیاب رہا یا ناکام؟؟
ساتھ ہی اس کی کامیابی اور ناکامی کے اس پر اثرات مرتب ہونا شروع ہو جائیں گے اور آخرت میں اس کے اچھے یا برے اعمال کا بدلہ مل کر رہے گا
اس لحاظ سے یہ دنیا اور اس دنیا کی زندگی کا ایک ایک لمحہ نہایت قیمتی ہے اور ہر شخص کو اپنی زندگی کے لمحات سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہیے
ہم دنیاوی اسٹیٹس دنیا کے مال و متاع اور ڈگریوں میں اپنا فائدہ اور کامیابی ڈھونڈتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کامیابی کا معیار یہ بالکل بھی نہیں ہے
اللہ کہتا ہے جو دوزخ سے بچ گیا اور جنت میں داخل ہو گیا ایسا بندہ کامیاب ہے
یہ دنیا ہمارے کام نہیں آئے گی دنیا یہاں ہی رہ جائے گی اور ہم خالی ہاتھ اپنی منزل ( قبر ) کی طرف روانہ ہونے والے ہیں
آخری بات
اس زندگی کا کوئی بھروسا نہیں آخرت کی گھنٹی بجنے والی ہے
موت سر پر منڈلا رہی ہے
جب پیغام اجل آجائے گا تو سب سے پہلے ہم سے ہمارا نام چھین لیا جائے گا ہم میت میں تبدیل ہو جائیں گے ہر کوئی پوچھ رہا ہوگا جنازہ کب ہے
چند لمحوں کی بات ہے ہم اپنے پیاروں کے کتنے ہی پیارے ہیں لیکن ہمارے پیارے بے بس ہو جائیں گے اور ہمیں خالی ہاتھ شہر خاموشاں میں چھوڑ آئیں گے
بہنو اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں سفرآخرت کی تیاری کرنے کی فکر عطا فرمائے اور ہمیں اخروی کامیابی کا راز سلجھا دے آمین ثم آمین
تیرا کیا بنے گا بندے تو سوچ آخرت کی
تو سوچ آخرت کی
جیتنے دنیا سکندر تھا چلا
جب گیا دنیا سے خالی ہاتھ تھا
لہلہاتے کھیت ہوں گے سب فنا
خوشنما باغات کو ہے کب بقا
تو خوشی کے پھول لے گا کب تلک
تو یہاں زندہ رہے گا کب تلک
تیرا کیا بنے گا بندے تو سوچ آخرت کی تو سوچ آخرت کی