صحافت پاکستان کا خطرناک شعبہ ہے، سی پی ڈی آئی

سنٹرفارپیس اینڈ ڈیویلپمنٹ انیشیٹوز(سی پی ڈی آئی) کے زیراہتمام اوریورپی یونین کے مالی تعاون سے لاہورکےمقامی ہوٹل میں صحافیوں کے تحفظ، ڈیجٹیل سیکورٹی اور نفسیاتی وسماجی معاونت کے عنوان سےمنعقد شدہ تین روزہ ورکشاپ اپنے اختتام کو پہنچ چکی ہے، اس تربیتی ورکشاپ میں لاہورسمیت پنجاب کے مختلف علاقوں، بشمول جنوبی پنجاب کے اضلاع سے تعلق رکھنے والے صحافی، جن میں خواتین بھی شامل تھیں نے بھرپور شرکت کی ہے، سیشنز کے دوران مختلف سرگرمیاں منعقد کی گئی ہیں، جن کا مقصد شرکاء کا استفادہ تھا، مزید براں دوران ڈیوٹی ان تدابیر کو بروئے کارلاتے ہوئے صحافی کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں؟ ورکشاپ میں بتایا گیا کہ 1992 سے لیکر اب تک دنیا بھر میں 1387صحافیوں کو قتل کیا جا چکا ہے، جن میں پاکستانی صحافیوں کی تعداد61 ہے، اس فہرست میں ایڈیٹر پی پی آئی اسلام آباد ملک محمد اسماعیل خان، ولی خان بابر اور دیگر صحافی شامل ہیں، آئین ِپاکستان کا آرٹیکل 19 ہر شہری کو قانونی دائرے کے اندررہتے ہوئے اظہاررائے کی آزادی فراہم کرتا ہے، اسی طرح آئین پاکستان کے آرٹیکل 19-اے کے مطابق معلومات تک رسائی ہر شہری کا بنیادی حق ہے، اسی بنیاد پرمعلومات تک رسائی کے موثرقوانین وفاق اور چاروں صوبوں میں نافذ کیے جا چکےہیں، صحافی اس قانون کے ذریعے مطلوبہ معلومات تک بآسانی رسائی حاصل کر سکتے ہیں اورعوام کو بہتراورمعروضیت پرمبنی خبریں پہنچا سکتے ہیں، ٹریننگ کے دوران یہ تجزیہ بھی سامنے لایا گیا ہے کہ کرپشن، سیاسی بیٹ اورکرائم رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو دیگر صحافیوں کے مقابلے میں زیادہ خطرناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے، دنیا میں صحافتی پیشے کے لئے خطرناک ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے، صحافت پاکستان کے خطرناک پیشوں میں سے ایک پیشہ ہے، دوسری جانب صحافیوں اور فری لانسرز کو میڈیا کے ادارے اور اخبارات محدود وسائل کی وجہ سے مناسب تحفظ، تربیت اورسیکیورٹی فراہم نہیں کرسکتے ہیں، مزید صحافیوں کے تحفظ اوران کے خلاف جرائم کرنے والے مجرموں میں سزا سے بے خوفی کا مسئلہ بھی بڑی حد تک حکومت کی فوری توجہ کا متقاضی ہے، صحافیوں کے تحفظ کے لئے فوری اور موثر قانون سازی وقت کی ضرورت اوراس پیشے کے تقدس کو برقرار رکھنے کے لئے لازم ہے، انہی حالات کو مدنظررکھتے ہو ئے سی پی ڈی آئی نے یورپی یونین کے مالی معاونت سے جاری کردہ پراجیکٹ سول سوسائٹی فارانڈیپینڈنٹ میڈیا اینڈ ایکسپریشن (سائم) میں آئینی حدود کے اندررہتے ہوئے اظہاررائے کی آزادی کو یقینی بنانے کے لئے صحافیوں کی تربیت کواولین ترجیح دی گئی ہے، مذکورہ تربیتی نشست تین دن کے دورانیئے پرمبنی تھی، یہ پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں مرحلہ وار منعقد کی جائے گی، تربیتی نشستوں کی پہلی ٹریننگ اسلام آباد میں منعقد کی گئی تھی، دوسری نشست لاہور میں تیسری نشست پشاورمیں جبکہ چوتھی نشست آج یکم جولائی کو لاہور میں شرکاء میں اسناد کی تقسیم کے بعد مکمل ہو ئی ہے، اسی نوعیت کی ٹریننگ کی مزید 6 نشستیں آنے والے مہینوں میں ملک کے مختلف شہروں میں منعقد کی جائےگی، شرکاء میں شامل کرن رباب خان، راجہ کامران، عزیر بن حسین، مصعب فاروق، ردا بتول، بشریٰ طارق اور دیگر نے کہا کہ اس قسم کی تربیتی نشستیں صحافیوں کی سیکیوریٹی، نیٹ ورکنگ اور تحفظ کے لئے بہتر قانون بنانے میں بھی معاون ثابت ہوں گی، نوجوان صحافیوں کے لئے ایسی تربیتی نشستوں میں شرکت کرنا پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ دوران ڈیوٹی غیر محفوظ اورشورش زدہ حالات کا سامنا کرنے اور اپنی حفاظت کو یقینی بنانے میں مددگاراورمعاون ثابت ہورہی ہیں، صحافیوں کے مختلف گروپوں نے اس نوعیت کی مزید تربیتی نشستیں منعقد کرنے پرسی پی ڈی آئی اور یورپی یونین کی کاوشوں کو سراہا ہے، صحافتی تنظیموں سے نوجوان صحافیوں کے لئے اسی نوعیت کی نشستیں منعقد کرنے کا مطالبہ بھی کردیا ہے.

Comments are closed.