شعور_گناہ تحریر : انجینیئر مدثر حسین

انسان کو اللہ رب العزت نے اشرف المخلوقات بنایا ہے. اچھائی اور برائی کی تمیز، رہن سہن کے طور طریقے سکھاے ہیں. زندگی کو راہ راست پر رکھنے اور بقا کے لئے گاہے بگاہے مختلف ادوار میں مختلف انبیاء کرام علیہم السلام بھیجے ہیں. جن کا سلسلہ ہمارے پیارے نبی کریم ختم النبیںن محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر آکر ختم ہوا ہے. یہ سب انسان کو راہ راست کی تلقین اور رب کے بندوں کا رب سے تعلق قائم رکھنے کے لیے کیا گیا. شیطان چونکہ جب سے جنت سے نکالا گیا تب سے نوع انسانی کو راہ رب العالمین سے متنفر کرنے کا کام کرتا چلا آیا ہے. اسی سے محفوظ رکھنے کے لیے بنی نوع انسان کے لیے انبیاء کرام علیہم السلام کے نزول کا سلسلہ چلتا رہا. نبی کریم خاتم النبیںن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اللہ رب العزت نے یہ زمہ داری امت کو سونپی کہ اچھائی کا حکم دے اور برائی سے روکے. انسان کی سب سے بڑی کمزوری جو کہ شیطان کا سب سے کارآمد ہتھیار بھی ہے وہ انسان کے اندر موجود اس کا نفس ہے. جسے شیطان دنیا کی طلب میں الجھاے رکھتا ہے. اگر انسان اس طلب کو کنٹرول نہ کرے تو یہی طلب بڑھتے بڑھتے ہوس کے درجے کو جا پہنچتی ہے. یہی وہ مرحلہ ہے جہاں سے انسان کا تباہی کا سفر شروع ہوتا ہے. انسان ہوس کے حصول کے لیے اچھائی اور برائی کی تمیز چھوڑ دیتا ہے. یہاں ہوس سے مراد ہر وہ خواہش کی شدت ہے جو اگر اعتدال میں رہے تو ضرورت کے درجے میں ہوتی ہے. اگر اعتدال کے دائرے سے باہر ہو جاے تو ہوس بن جاتی ہے.
اگر انسان کو سفر کے لیے گاڑی کی ضرورت ہے تو یہ اس کی ضرورت ہے اگر مالی لحاز سے یہ فی الوقت اس کی پہنچ سے دور ہے تو اسے صبر کرنا چاہیے محنت کرے حلال اور حرام کی تمیز رکھے اور اپنے ضمیر کو شیطان کی ہتھے چڑھ کر اس ضرورت کو ہوس بننے سے محفوظ رکھے. ہوس اسی کو کہتے ہیں جس میں کسی طلب کا اپنی اصلی حیثیت سے اس قدر بڑھ جانا کہ اس کے حصول کے لیے انسان حلال اور حرام کا فرق نا رکھے اور اسے حاصل کرنے کے لیے ہر برائی اور گناہ جیسے رشوت، چوری جھوٹ فریب حق تلفی الغرض انسان کا اس کی ضرورت کی تکمیل کے لیے ہر حد سے گزر جانا یہی ہوس ہے.

ہر انسان کے اندر یہی نفس اس کے لیے منصف کا کام انجام دیتا ہے لیکن کب تک؟ جب تک یہ شیطان کےبہکاوے میں نہیں آتا. جب تک یہ زندہ رہتا ہے تب تک انسان اچھائی اور برائی کا شعور رکھتا ہے.

انسان کا گناہ سے قبل گناہ کو بھانپ لینا اور اس سے بعض رہنا یہ اللہ کی بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے. اور نفس کہ زندہ ہونے کی دلیل ہے.

*اسی کو شعور_گناہ کہتے ہیں*
انسان رب کی راہ سے بھٹنے سے بچا رہتا ہے اور اللہ کے فرمانبرداروں میں شامل رہتا ہے.
جب شعور_گناہ ختم ہو جائے تو رب العالمین کی طرف سے مہلت کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور تب تک چلتا ہے جب تک انسان اپنی پوری قوت وقت طاقت لگا کر گناہوں سے اپنے دامن کو داغدار نہیں کر لیتا. رب کی رحمت اس بندے کو ڈھیل دیتی رہتی ہے وہ گناہ حق تلفی اور حقوق اللَّهُ حقوق العباد سب روند دیتا ہے. اور تباہی اس لیے ہوتی ہے کہ اس میں اس گناہ کا شعور ہی ختم ہو جاتاہے. وہ گناہ کر کہ سمجھتا ہے کہ میں ٹھیک راستے پر ہوں. جب انسان اپنی پوری قوت گناہوں پر صرف کر کے مطمئن ہو جاتا ہے اور اسے تب بھی احساس نہیں ہوتا کہ میں گناہ کرتا رہا. جب اسے کے رویے میں فرعونیت آجاتی ہے کہ میرا کوئی کچھ نہیں بگڑ سکتا. تب اس کا احتساب شروع ہو جاتا ہے جسے مکافات کہتے ہیں.
پھر انسان کی سب کاوشیں بے بس ہو جاتی ہیں اور رب کی رحمت اس کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے. اور وہ رب کے غضب کا شکار ہونے لگتا ہے.
اس کی مثال ماضی کے ادوار سے ملتی ہے.
حضرت موسی علیہ السلام کے دور میں ایک شخص بہت گنہگار تھا ایک دن حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہنے لگا موسی علیہ السلام میں نہ آج تک کوئی گناہ نہیں چھوڑا تم اپنے رب سے کلام کرنے جا رہے ہو. رب سے میرے بارے سوال کرنا کہ وہ مجھے سزا کیوں نہیں دیتا. جب موسی علیہ السلام نے سوال کیا کہ اے رب العالمین اس کے گناہ کا تو سارا شہر گواہ ہے پھر بھی اس پر خوشحالی ہی خوشحالی ہے اسے سزا کیوں نہیں ملتی؟ جواب آیا موسی علیہ السلام اسے سزا مل چکی اسے گناہ کی طرح سزا کا شعور نہیں ہے پوچھا اللہ کیا سزا دی اسے؟ جواب آیا اس کی آنکھ سے ندامت کے آنسو چھین لیے ہیں یہ چاہے بھی تو میرے سامنے توبہ نہ کر سکے گا.
تو پتہ چلا کہ شعور_گناہ ہو تو ندامت کی توفیق ملتی ہے اور جو رب العالمین کے سامنے اپنے کئے پر نادم ہو جائے رب کریم غفور الرحيم اسے معاف کر کے دوبارہ اپنی رحمت کی آغوش میں لے لیتا ہے. اپنے نفس کو شیطان سے بچائیں اور شعور_گناہ کو قائم رکھیں تا کہ رب العالمین کی رحمت کی آغوش میں رہ سکیں اسی میں دنیا و آخرت بھی بھلائی ہے

@EngrMuddsairH

Comments are closed.