سیف انداز بیاں رنگ بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں ہے
سیف الدین سیف
پیدائش:20مارچ 1922ء
امرتسر، ہندستان
وفات:12 جولائی1993ء
لاہور، پاکستان
سیف الدین نام اور سیف تخلص تھا۔ 20 مارچ 1922ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔بعض سیاسی ومذہبی مسائل پر ارباب کالج سے الجھ پڑنے کی وجہ سے امتحان سے روک دیا گیا۔ مجبوراً سیف نے تعلیم سے منہ موڑلیا اور تلاش معاش میں سرگرداں ہو گئے ۔ ۱۹۴۶ء میں فلمی لائن اختیار کی۔ فلمی نغمہ نگاری او رمکالمے لکھنا ان کا ذریعہ معاش بن گیا۔ انھوں نے مستقل طور پر لاہور میں اقامت اختیار کرلی۔ سیف کو کم سنی ہی سی شعروسخن سے دل چسپی تھی۔ انھوں نے غزل ، رباعی ، طویل ومختصر نظمیں اور گیت سبھی کچھ لکھا ہے۔ مگر غزل سے فطری لگاؤ تھا۔ 12جولائی 1993ء کو لاہور میں انتقال کرگئے۔’’خم کا کل‘‘ کے نام سے ان کا شعری مجموعہ شائع ہوگیاہے ۔ ’’کف گل فروش‘‘ ان کے دوسرے شعری مجموعے کا نام ہے۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:129
منتخب اشعار
۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا قیامت ہے ہجر کے دن بھی
زندگی میں شمار ہوتے ہیں
دل ویراں کو دیکھتے کیا ہو
یہ وہی آرزو کی بستی ہے
سیفؔ انداز بیاں رنگ بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
تمہارے بعد خدا جانے کیا ہوا دل کو
کسی سے ربط بڑھانے کا حوصلہ نہ ہوا
آج کی رات وہ آئے ہیں بڑی دیر کے بعد
آج کی رات بڑی دیر کے بعد آئی ہے
تم کو بیگانے بھی اپناتے ہیں میں جانتا ہوں
میرے اپنے بھی پرائے ہیں تمہیں کیا معلوم
کتنا بیکار تمنا کا سفر ہوتا ہے
کل کی امید پہ ہر آج بسر ہوتا ہے
مری داستان حسرت وہ سنا سنا کے روئے
مرے آزمانے والے مجھے آزما کے روئے
بولے وہ کچھ ایسی بے رخی سے
دل ہی میں رہا سوال اپنا
زندگی کس طرح کٹے گی سیفؔ
رات کٹتی نظر نہیں آتی
شور دن کو نہیں سونے دیتا
شب کو سناٹا جگا دیتا ہے
غم گسارو بہت اداس ہوں میں
آج بہلا سکو تو آ جاؤ
جس دن سے بھلا دیا ہے تو نے
آتا ہی نہیں خیال اپنا
شاید تمہارے ساتھ بھی واپس نہ آ سکیں
وہ ولولے جو ساتھ تمہارے چلے گئے
کتنے انجان ہیں کیا سادگی سے پوچھتے ہیں
کہیے کیا میری کسی بات پہ رونا آیا
حسن جلوہ دکھا گیا اپنا
عشق بیٹھا رہا اداس کہیں
کبھی جگر پہ کبھی دل پہ چوٹ پڑتی ہے
تری نظر کے نشانے بدلتے رہتے ہیں
پاس آئے تو اور ہو گئے دور
یہ کتنے عجیب فاصلے ہیں
کوئی ایسا اہل دل ہو کہ فسانۂ محبت
میں اسے سنا کے روؤں وہ مجھے سنا کے روئے
چلو میکدے میں بسیرا ہی کر لو
نہ آنا پڑے گا نہ جانا پڑے گا
تم نے دیوانہ بنایا مجھ کو
لوگ افسانہ بنائیں گے تمہیں
ہمیں خبر ہے وہ مہمان ایک رات کا ہے
ہمارے پاس بھی سامان ایک رات کا ہے
میرا ہونا بھی کوئی ہونا ہے
میری ہستی بھی کوئی ہستی ہے
جی نہیں آپ سے کیا مجھ کو شکایت ہوگی
ہاں مجھے تلخئ حالات پہ رونا آیا
اپنی وسعت میں کھو چکا ہوں میں
راہ دکھلا سکو تو آ جاؤ
دل ناداں تری حالت کیا ہے
تو نہ اپنوں میں نہ بیگانوں میں
ایسے لمحے بھی گزارے ہیں تری فرقت میں
جب تری یاد بھی اس دل پہ گراں گزری ہے
آپ ٹھہرے ہیں تو ٹھہرا ہے نظام عالم
آپ گزرے ہیں تو اک موج رواں گزری ہے
یہ آلام ہستی یہ دور زمانہ
تو کیا اب تمہیں بھول جانا پڑے گا
سیفؔ پی کر بھی تشنگی نہ گئی
اب کے برسات اور ہی کچھ تھی
تھکی تھکی سی فضائیں بجھے بجھے تارے
بڑی اداس گھڑی ہے ذرا ٹھہر جاؤ
کیوں اجڑ جاتی ہے دل کی محفل
یہ دیا کون بجھا دیتا ہے
دل نے پایا قرار پہلو میں
گردش کائنات ختم ہوئی
دشمن گئے تو کشمکش دوستی گئی
دشمن گئے کہ دوست ہمارے چلے گئے
کیسے جیتے ہیں یہ کس طرح جیے جاتے ہیں
اہل دل کی بسر اوقات پہ رونا آیا
رات گزرے نہ درد دل ٹھہرے
کچھ تو بڑھ جائے کچھ تو گھٹ جائے
قریب نزع بھی کیوں چین لے سکے کوئی
نقاب رخ سے اٹھا لو تمہیں کسی سے کیا
اس مسافر کی نقاہت کا ٹھکانہ کیا ہے
سنگ منزل جسے دیوار نظر آنے لگے
پھول اس خاکداں کے ہم بھی ہیں
مدعی دو جہاں کے ہم بھی ہیں








