ساجد گوندل گمشدگی کیس،عدالت کا تحریری حکمنامہ جاری

0
36

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ نے سیکیورٹیز ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے لاپتہ افسر ساجد گوندل کیس پر آج کی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کردیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے تحریری حکم نامہ جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت اور انتظامیہ شہریوں کی حفاظت میں ناکام ہوچکے ہیں وفاقی حکومت، قانون نافذ کرنے والے ادارے ساجد گوندل کو بازیاب کرا کر پیر کو عدالت کو آگاہ کریں۔ ساجد گوندل پیر تک بازیاب نہیں ہوتے ہیں تو سیکریٹری داخلہ، چیف کمشنر اور آئی جی عدالت کے روبرو پیش ہوں۔

عدالت کے حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا کہ سیکریٹری داخلہ، چیف کمشنر اور آئی جی اسلام آباد پیش ہوکر بتائیں کہ ان کی نااہلی اور ناکامی پر ان کے خلاف کارروائی کیوں نہ کی جائے۔

حکمنامے میں مزید کہا گیا کہ اسلام آباد میں شہریوں کی جرائم سے حفاظت نہ کرپانا عدالت کیلئے ناقابل برداشت ہے، مبینہ اغوا کے کیس بڑھنے نے شہریوں کے بنیادی حقوق کے عمل درآمد پر سنجیدہ سوالات اٹھا دیے ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ماہرہ ساجد کیس میں شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے ریاستی ذمہ داروں کا تعین کیا تھا۔

عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ عدالتی حکم نامے کی ایک کاپی سیکریٹری کابینہ ڈویژن کو بھی بھیجی جائے، اگر ساجد گوندل کو پیر تک بازیاب نہیں کرایا گیا تو سیکریٹری کابینہ معاملہ وفاقی کابینہ کے سامنے رکھیں۔

قبل ازیں آج عدالت میں سماعت ہوئی تو سیکرٹری داخلہ، آئی جی پولیس اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئے،ایس ای سی پی کے لاپتہ افسر کے اہل خانہ بھی عدالت پہنچ گئے، عدالت نے کہا کہ رپورٹ ہوا کہ چئرمین لاپتہ افراد کمیشن نے ساجد گوندل اغوا کا نوٹس لیا ہے،کیا یہ طے ہو گیا ہے کہ یہ جبری گمشدگی کا کیس ہے جو کمیشن نے نوٹس لیا؟ کیا کمیشن کے چئیرمین کو کوئی معلومات ملی ہیں کہ یہ جبری گمشدگی ہے؟ کیا تفتیش کرنے والوں نے اس وقت تک لاپتہ افراد کمیشن سے رابطہ کیا؟

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ چیف کمشنر کہاں ہیں؟ جس پر ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات نے کہا کہ وہ این ڈی یو کی ٹریننگ میں تھے، آ رہے ہیں،عدالت نے کہا کہ عدالت کو یونیفارم کا احترام ہے، کیا یہ عام کیس ہے؟ عدالت بنیادی حقوق کی محافظ ہے، دارالحکومت صرف چودہ سو اسکوائر میل پر مشتمل ہے،اس چھوٹے علاقہ کے لیے آئی جی اور چیف کمشنر موجود ہیں، سب سے بڑی آئینی عدالت بھی اسلام آباد میں ہے، کیا آپ کو معلوم ہے کہ عدالتوں میں اسی نوعیت کی کتنی درخواستیں زیر سماعت ہیں،

سیکرٹری داخلہ نے عدالت میں کہا کہ ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر وفاقی حکومت کے کسی وزیر کے بیٹے کے ساتھ ایسا ہو تو آپ کا رویہ کیا ہو گا؟ ایک اور شہری کے لاپتہ ہونے کے کیس میں بھاری جرمانے کیے گئے،ایف آئی اے، پولیس اور وزارت داخلہ ریئل اسٹیٹ کے کاروبار میں شریک ہیں، وزیراعظم کا وکلا تحریک میں قانون کی حکمرانی کے لیے اہم کردار تھا ، کیا آپ نے انہیں بتایا کہ وفاقی دارالحکومت میں کیا ہو رہا ہے؟ کسی کو تو اس کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے، عدالت کو کوئی ایک مثال بتائیں جس میں لاپتہ شہری کو بازیاب کرایا گیا ہو، آپ شہری کو عدالت میں پیش کرنے میں ناکام ہوئے، عدالت انوسٹی گیشن میں مداخلت نہیں کرے گی،

سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ آج صبح اجلاس میں تمام صورتحال کا جائزہ لیا ہے،اعلی سطح پر تفتیش کی جا رہی ہے، جس پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کی وزارت اور ہر ڈیپارٹمنٹ ریئل اسٹیٹ کے کاروبار میں شامل ہے، جس پر سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ یہ بات درست نہیں ہے، عدالت نے کہا کہ ہر شہری عدم تحفظ کا شکار ہے، یہ صورتحال تشویشناک ہے،

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان کے دارالحکومت میں قانون کی حکمرانی نہیں تو اس کا کیا مطلب ہے؟ آپ کی وزارت کے لوگ ہاؤسنگ سوسائٹیز کے کیسز میں فیصلے کرتے ہیں، مجھے یقین ہے کہ آپ نے اس متعلق وزیراعظم کو آگاہ ہی نہیں کیا ہو گا،وزیراعظم کو جیسے ہی اطلاع ہوئی، ریاست کا ریسپانس مختلف ہو گا، سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ ایف آئی آر کاٹ کر تفتیش شروع کر دی گئی ہے، جس پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنی ناکامی تسلیم کریں،وفاقی دارالحکومت میں ہر کوئی خود کو غیر محفوظ تصور کر رہا ہے،سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ ہم اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں،عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ایسا ایک رات میں نہیں ہوا، مس گورننس نے اس صورتحال کو پہنچایا، آپ آئینی عدالت کے سامنے ریاست کے طور پر کھڑے ہیں اور ریاست کمزور نہیں ہوتی،یہ اصل کرپشن ہے، آپ نے وزیراعظم کو بتایا کہ آپ کے ماتحت ادارے اور انٹیلی جنس ایجنسیاں ریئل اسٹیٹ کے کاروبار میں ہیں،آپ نے اسلام آباد کی حدود سے لاپتہ اور اغوا ہونے والوں کی فہرست حاصل کی ہے؟

عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر ہم شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ نہیں کر سکتے تو ہم یہاں کیا رہے ہیں،پھر یہ آئینی عدالت بند کر دیں، ایس ای سی پی آفیشل کی بوڑھی ماں اور چھوٹے بچے یہاں موجود ہیں، یہ بچے کسی کے بھی ہو سکتے ہیں، اس ماں کو کیا جواب دیں؟ کوشش کریں کہ کسی اور ماں کو اس طرح کے معاملے میں عدالت نہ آنا پڑے، آپ کتابی باتیں نہ بتائیں اور وزیراعظم کے نوٹس میں یہ بات لائیں، عدالت کو وزیراعظم پر مکمل اعتماد اور یقین ہے، آپ کو کتنا وقت چاہئے؟ آپ کو آئندہ سماعت تک موقع دے رہے ہیں، آئندہ کسی وضاحت کے ساتھ نہ آئیں،

عدالت نے کہا کہ آپ وزیراعظم کو انفارم کریں کہ اداروں کا ریئل اسٹیٹ کاروبار کرنا مفادات کا ٹکراؤ ہے،یہ معاملہ آپ وفاقی کابینہ کے نوٹس میں بھی لائیں، تفتیشی افسران کی کوئی تربیت نہیں، اسلام آباد میں پراسیکیوشن برانچ ہی نہیں،آپ بتائیں کہ اس صورتحال میں آئینی عدالت کیا کرے؟ سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ ریاستی اداروں کو ان کا کام کرنے دیا جائے، وزیراعظم کو مطلع اور آئندہ کابینہ اجلاس میں یہ معاملہ رکھا جائے گا، عدالت نے استفسار کیا کہ وفاقی دارالحکومت میں کتنے منتخب نمائندے ہیں؟ جس پر وکیل نے کہا کہ تین افراد اس علاقہ سے عوام کے نمائندے منتخب ہوئے، عدالت نے کہا کہ تین دنوں سے صرف میٹنگز ہو رہی ہیں، ای ای سی پی کے آفیشل کو تلاش نہیں کیا جا سکا،

اسلام آباد سے سرکاری افسر، سابق صحافی لاپتہ، گاڑی مل گئی

عدالت نے کہا کہ آپ کی کوششیں نظر نہیں آ رہیں،پٹیشنر کی عمر کیا ہے؟ کیا کسی نے ان کے گھر کا وزٹ کیا؟ جس پر پولیس نے کہا کہ ایس پی انوسٹی گیشن اور ڈی ایس پی نے ان کے گھر کا دورہ کیا،عدالت نے کہا کہ اگر کسی منسٹر کا بیٹا اغوا ہوتا تو کیا صرف ڈی ایس پی ان کے گھر جاتا؟ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سیکرٹری صاحب، یہ بتائیں کہ کیا وزارت داخلہ، ایف آئی اے اور انٹیلی جنس بیورو کے افسران کاروبار میں ملوث ہو سکتے ہیں؟ جس پر سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ براہ راست ملوث نہیں ہو سکتے، ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ اس طرح تو سپریم کورٹ ایمپلائیز کی بھی ہاؤسنگ سوسائٹی ہے،عدالت نے کہا کہ رول آف لا نہیں ہو گا تو کرپشن ہو گی،صرف نیب کرپشن نہیں روک سکتا، اس کے لیے قانون کی حکمرانی بھی ضروری ہے،

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایس ای سی پی کے لاپتہ افسر کی بازیابی کے لیے 17 ستمبر تک مہلت دیتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی

اسلام آباد ہائیکورٹ نے ساجد گوندل کے اغوا پر بڑا حکم دے دیا

Leave a reply